معروف گلوکار ابرار الحق نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں بچپن سے گلوکاری کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ حادثاتی طور پر گلوکار بنے۔
ابرار الحق نے حال ہی میں ’مذاق رات‘ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
پروگرام کے دوران انہوں نے شکوہ کیا کہ خصوصی طور پر پنجابی زبان بولنے والے افراد اپنی مادری زبان بولنے میں شرماتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اردو قومی زبان ہے، اس پر سب کو فخر ہے لیکن اپنی مادری زبان پر بھی فخر ہونا چاہیے، پنجابی بولنے والوں کو اپنی زبان فخر سے بولنی چاہیے۔
گلوکار نے کہا کہ عام طور پر پنجابی بولنے والے افراد انگریزی انداز میں بولتے ہیں کہ انہیں پنجابی بولنی نہیں آتی، حالانکہ وہ اچھی پنجابی بولتے ہیں لیکن انہیں مادری زبان بولنے میں شرم محسوس ہوتی ہے۔
انہوں نے ایک قصہ سنایا کہ ماضی میں انہیں ایک مداح خاتون فون کرکے پنجابی زبان میں بات کرتی تھیں اور انہیں مذکورہ خاتون کی آواز بہت اچھی لگتی تھی۔
ان کے مطابق انہوں نے مذکورہ مداح خاتون کا نمبر ’پنجابی عاشق‘ کے نام سے فون میں محفوظ کیا، ان کا فون جب بھی آتا، ان کی اہلیہ انہیں آوازیں دے دے کر بتاتی تھیں کہ پنجابی عاشق کا فون آگیا۔
ایک سوال کے جواب میں ابرار الحق نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر اتفاقی طور پر گانا گایا، جس کے بعد ہی وہ گلوکار بنے۔
ابرارالحق نے بتایا کہ ان کے دوست شاہد مسعود پی ٹی وی میں پروڈیوسر تھے، وہ ایک پروگرام میں کرتے تھے، جس میں گانا بھی شامل ہوتا تھا، ایک دن ان کا گلوکار نہیں آیا تو انہوں نے انہیں گانا گانے کے لیے بلالیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعے سے قبل انہوں نے کبھی گلوکاری کی تھی، نہ انہیں گلوکاری کا شوق تھا، تاہم گانا گانے کے بعد انہیں گلوکاری کا شوق ہوا۔
گلوکار نے بتایا کہ بعد ازاں انہوں نے یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران ’اساں تے جانا ہے بلو دے گھر‘ کا گانا لکھا اور موسیقار سے موسیقی بنوانے کے بعد انہوں نے اسے ریکارڈ کروایا، جسے بہت پسند کیا گیا اور وہ راتوں و رات مقبول ہوگئے۔
ابرارالحق کا کہنا تھا کہ ان کا پہلا گانا ہی ’اساں تے جانا ہے بلو دے گھر‘ تھا اور مذکورہ گانے سے قبل انہوں نے کبھی گلوکاری نہیں کی تھی، انہوں ںے کسی سے تربیت حاصل نہیں کی بلکہ جذبے کے تحت گلوکار بنے اور انہیں شہرت بھی ملی۔