موسمیاتی خطرات اور صحافتی ذمہ داریاں

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے زیر اہتمام میڈیا سیمینار میں سینیٹر شیری رحمٰن کی گفتگو نہ صرف متاثرکن تھی بلکہ یہ ایک مکمل رہنمائی تھی اُن تمام شعبوں کے لیے جو موسمیاتی بحران اور آفات کی رپورٹنگ سے جُڑے ہیں۔ ان کی باتوں سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلی کے سیاسی، معاشی اور سائنسی پہلوؤں سے آگاہ ہیں بلکہ میڈیا اور عوام کے درمیان پھیلنے والی معلومات کی نوعیت اور اثرات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔

"اہم فیصلے ۔۔۔۔۔ ترقی کی نئی راہیں ۔۔۔۔۔ خوشحالی کی ضامن"

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے، ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:

کیاادب کے طالب علم سائنسی تحقیق کر سکتے ہیں؟ بین الاقسام تحقیق پر ایک نظر

گزشتہ دنوں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیس بک پیج پر ایک خبر شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے چار سابق طالب علم—انوشہ خان، انارہ، محمد عزیر احمد اور باسط علی—جو انگلش ڈپارٹمنٹ سے فارغ التحصیل ہیں، انہوں نے امریکہ کی ایک نامور یونیورسٹی( Hawaii Pacific university)کے ساتھ اشتراک میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے جس کا موضوع (Conservation of Endangered Medicinal Plants) تھا۔

بھارتی جیلوں میں کشمیری نظر بندوں کی حالت زار

بھارتی جیلوں میں سالہاسال سے مقید کشمیری نظر بندوں کی ناگفتہ بہہ صورتحال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جرم بیگناہی کی پاداش میں اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور بھارتی جیلوں میں ان نظربندوں کا اس کے سوا کوئی قصور اور جرم نہیں ہے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں،جس کی پاداش میں انہیں نہ صرف تمام بنیادی سہولیات سے یکسر محروم کیا جاچکا ہے،بلکہ اس کے علاوہ ایک اور سنگین جرم جو کشمیری نظربندوں کیساتھ شروع دن سے لیکر آج تک روا رکھا جاتا ہے،کہ انہیں نہ تو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی عدالتیں کشمیری نظربندوں کی حالت زار کا نوٹس لینے کی زحمت گوراکرتی ہیں،یوں مقدمہ چلائے بغیر کشمیری نظر بند بھارتی جیلوں میں زندگی کے ایام گزارتے ہیں۔کوئی تیس برسوں سے بھارتی جیلوں میں بند ہیں تو کسی کو بتیس ،پچیس ،دس اورپانچ برس ہوچکے ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی اور مالیاتی بحران

پاکستان کا اعلیٰ درجہ کا وفاقی تعلیمی ادارہ ایک غیر معمولی مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیمی ادارہ، جو کہ طویل عرصے سے علمی تحقیق کا مرکز رہا ہے، اب بجٹ کی شدید رکاوٹوں سے دوچار ہے۔ جیسے جیسے اگلے ماہ بجٹ کا نیا اعلان قریب آرہا ہے، نہ صرف قائداعظم یونیورسٹی بلکہ پاکستان بھر میں سرکاری جامعات کو اسی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے فنڈز میں اضافے کا فوری مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

صفحہ 1 کا 17