نیویارک نے پہلا مسلمان امیدوار میئر چن لیا

بھارتی نژاد امریکی مسلمان 33 سالہ زہران ممدانی پرائمری الیکشن میں سابق گورنر نیویارک اینڈریو کومو کو شکست دے کر ڈیموکریٹس کی جانب سے میئر نیویارک کے امیدوار بن گئے۔ فائل فوٹو بھارتی نژاد امریکی مسلمان 33 سالہ زہران ممدانی پرائمری الیکشن میں سابق گورنر نیویارک اینڈریو کومو کو شکست دے کر ڈیموکریٹس کی جانب سے میئر نیویارک کے امیدوار بن گئے۔

بھارتی نژاد امریکی مسلمان 33 سالہ زہران ممدانی پرائمری الیکشن میں سابق گورنر نیویارک اینڈریو کومو کو شکست دے کر ڈیموکریٹس کی جانب سے میئر نیویارک کے امیدوار بن گئے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد 4 سال قبل مستعفی ہونے کے بعد سیاست میں واپسی کی کوشش کرنے والے اینڈریو کومو نے منگل کی شب اپنے حامیوں سے مختصر خطاب میں کہا کہ انہوں نے زہران ممدانی کو فون کر کے مبارکباد دی ہے۔

انہوں نے انتخابات سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہ آج کی رات اس (زہران ممدانی) کی ہے۔

زہران ممدانی نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ نیلسن منڈیلا کا قول ہے کہ جب تک کوئی کام ہو نہیں جاتا وہ ناممکن نظر آتا ہے، میرے دوستو! یہ ہوچکا ہے اور آپ ہی ہیں جنہوں نے یہ ممکن کردکھایا ہے۔

انہوں نے کہاکہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نیویارک سٹی کے میئر کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کا نامزد امیدوار ہوں۔

انتخابی حکام کے مطابق تقریباً 95 فیصد بیلٹ اسکین ہونے کے بعد سامنے آنے والے ابتدائی نتائج میں زہران ممدانی 43.5 فیصد ووٹ لے کر آگے تھے جبکہ اینڈریو کومو کو 36.4 فیصد ووٹ ملے، بقیہ 9 ڈیموکریٹ امیدوار واضح طور پر پیچھے رہ گئے۔

نیویارک کے رینکڈ چوائس سسٹم کے تحت حتمی نتیجہ اگلے ہفتے تک سامنے آئے گا، کیونکہ اس طریقے میں ووٹر 5 امیدواروں کو ترجیحی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔

تاہم ممدانی کی واضح سبقت ایسی ہے جسے کومو یا کوئی اور امیدوار بظاہر ختم نہیں کر سکتا، خاص طور پر اس لیے کہ تیسرے نمبر پر آنے والے سٹی کمپٹرولر بریڈ لینڈر نے اپنے حامیوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ممدانی کو دوسرے نمبر پر رکھیں۔

یہ انتخاب اس بات کی ابتدائی جھلک تھا کہ ڈیموکریٹک پارٹی، ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع دوسرے دورِ صدارت کے 5 ماہ بعد کس سمت میں جانا چاہتی ہے۔

اینڈریو کومو اور زہران ممدانی کے درمیان فرق واضح تھا، ایک طرف تجربہ کار اعتدال پسند اینڈریو کومو جو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت رکھتے ہیں۔

اور دوسری طرف زہران ممدانی ایک ترقی پسند نووارد ہیں اور ماضی سے قطع تعلق کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔

زہران ممدانی اب نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں، جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے، موجودہ میئر ایرک ایڈمز بھی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

تاہم بدعنوانی کے اسکینڈلز اور صدر ٹرمپ سے تعلقات کے تاثر نے ان کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔

ریپبلکن امیدوار کرٹس سلیوا ہیں، جو ایک ریڈیو میزبان اور ’گارڈین اینجلز‘ کے بانی ہیں، اور 2021 میں ایڈمز کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں۔

ڈیموکریٹک سوشلسٹ

خود کو ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ کہنے والے زہران ممدانی کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان میئر بنیں گے۔

وہ یوگنڈا میں ایک بھارتی نژاد خاندان میں پیدا ہوئے اور فلسطین کاز کے حامی کے طور پر سرگرم رہے ہیں۔

وہ نیویارک کے کوئنز بورو سے ریاستی اسمبلی کی نشست جیت چکے ہیں اور انہیں امریکا کے معروف ترقی پسند رہنما سینیٹر برنی سینڈرز اور رکنِ کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورتیز کی حمایت بھی حاصل ہے۔

سابق گورنر اینڈریو کومو نے زہران ممدانی پر تجربے کی کمی کا الزام عائد کیا جبکہ زہران ممدانی نے کومو پر جنسی ہراسانی کے الزامات کو انتخابی مہم میں تنقید کا نشانہ بنایا۔

صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ان کے شدید ناقد کے طور پر ابھرنے والے اینڈریو کومو کو سابق صدر بل کلنٹن اور سابق نیویارک میئر مائیکل بلومبرگ کی حمایت حاصل تھی۔

رینکڈ ووٹنگ سسٹم کے تحت ہر مرحلے میں سب سے کم ووٹ لینے والا امیدوار خارج کر دیا جاتا ہے اور اس کے ووٹ ان کے حامیوں کی جانب سے دیے گئے۔

دوسرے انتخاب کے امیدوار کو منتقل کر دیے جاتے ہیں، یہ عمل اس وقت تک دہرایا جاتا ہے جب تک کوئی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کر لے۔

زہران ممدانی کے لیے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اضافی گنتی کے بعد اپنی برتری میں مزید اضافہ کریں گے، کیونکہ انہوں نے اور تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار بریڈ لینڈر نے ایک دوسرے کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور اپنے ووٹروں سے کہا تھا کہ وہ دوسرے انتخاب کے طور پر ایک دوسرے کا نام درج کریں۔

install suchtv android app on google app store