وزارتِ خارجہ نے کالم نگار شمع جونیجو کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے اجلاس میں مبینہ شمولیت کے تنازع سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ 25 ستمبر کو وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے مصنوعی ذہانت کے موضوع پر یو این ایس سی اجلاس سے خطاب کیا تھا، تاہم تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر وائرل ہو گئیں، جن میں دیکھا گیا کہ پس منظر میں شمع جونیجو بیٹھی ہوئی ہیں۔
صارفین نے ان کے پرانے ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس بھی شیئر کیے، جن میں اسرائیل کی حمایت کا تاثر پایا گیا تھا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچ گیا۔
خواجہ آصف نے وضاحت کی کہ انہوں نے یہ خطاب وزیراعظم شہباز شریف کی مصروفیات کے باعث کیا اور یہ کہ اجلاس میں پیچھے بیٹھی فرد کے بارے میں تمام اختیارات وزارتِ خارجہ کے پاس ہیں۔
انہوں نے فلسطین کے معاملے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ صیہونیت سے نفرت رکھتے ہیں اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کا تعلق ذاتی کمٹمنٹ کا حصہ ہے۔
وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ شمع جونیجو کے پیچھے بیٹھنے اور وفد میں ان کی موجودگی کے سوالات کا جواب صرف وزارتِ خارجہ دے سکتی ہے، اور ان کی جگہ وہ یہ وضاحت نہیں دے سکتے۔
بعدازاں جمعہ کی رات دیر گئے وزارتِ خارجہ نے ’ایکس‘ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یو این ایس سی اجلاس میں وزیرِ دفاع کے پیچھے کسی مخصوص فرد کی موجودگی کے حوالے سے سوالات نوٹ کیے گئے ہیں، تاہم انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متعلقہ فرد ڈپٹی وزیراعظم و وزیرِ خارجہ کے دستخط شدہ سرکاری لیٹر آف کریڈنس میں شامل نہیں تھا، جو پاکستان کے 80ویں یو این جی اے اجلاس کے وفد کے لیے جاری کیا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ وزیرِ دفاع کے پیچھے ان کی نشست ڈپٹی وزیراعظم/وزیرِ خارجہ کی منظوری سے نہیں تھی۔
ادھر، شمع جونیجو نے بھی ایکس پر اپنے پرانے ٹوئٹس کے اسکرین شاٹس شیئر کیے، جن میں انہوں نے غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی مذمت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یوتھیے مجھے صیہونی کہہ رہے ہیں جبکہ گزشتہ 2 سال سے میں تقریباً روزانہ غزہ کے بارے میں ٹوئٹ کر رہی ہوں۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم کہہ رہی ہوں اور اسرائیلی مظالم دکھا رہی ہوں۔
یوتھیا ایک تحقیر آمیز اصطلاح ہے، جو عموماً پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر یہ پوری مہم میرے خلاف اس لیے چلائی گئی ہے، کیوں کہ وہ صرف مجھ سے ڈرتے ہیں۔
ہنگامہ
سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ کوئی بھی سلامتی کونسل یا جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر کے پیچھے نہیں بیٹھ سکتا جب تک کہ اسے حکومت کے سرکاری نمائندے کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا ہو۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ تو یہ کس نے ہونے دیا اور کیوں؟ کیا کوئی خفیہ پالیسی ایجنڈا اسرائیل، بگرام بیس یا ابراہام معاہدوں کے حوالے سے چل رہا ہے؟
حکومتِ پاکستان کو وضاحت دینی چاہیے — اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟
کمیونٹی الائنس فار پیس اینڈ جسٹس کی ڈائریکٹر مِلحَقہ صمدانی نے کہا کہ شمع جونیجو اسرائیل اور تعلقات کی بحالی کے ایجنڈے کی حامی ہیں۔
انہیں پاکستان کے یو این جی اے وفد میں شامل کرنا ملک کے لیے اچھا تاثر نہیں ہے۔
دوسری جانب، صحافی احمد نورانی نے کہا کہ جونیجو کی حب الوطنی پر سوال اٹھانا یا ان کے سفارت کاری سے متعلق خیالات کی بنیاد پر انہیں ‘اسرائیل نواز’ قرار دینا شرمناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ گھٹیا کردار کشی کی مہم گندے ذہنوں والے ٹرولز چلا رہے ہیں۔