قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس میں گلگت بلتستان کے ایڈیشنل سیکرٹری فاریسٹ ذید کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صرف دیامر اور اس کے قریبی علاقوں سے تقریباً 40 لاکھ مکعب فٹ لکڑی کاٹ لی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنگلات کی اس بے دریغ کٹائی نے نہ صرف ماحولیاتی توازن کو شدید خطرات سے دوچار کیا ہے بلکہ مقامی آبادی کے روزگار، معیشت اور قدرتی وسائل کو بھی براہ راست متاثر کیا ہے۔
ریڈ پلس سیل اور قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان کی زمینی تقسیم میں قدرتی جنگلات محض 3.58 فیصد پر مشتمل ہیں جبکہ 18.98 فیصد حصہ برف اور گلیشیئرز، 14.54 فیصد چراگاہوں، اور 61.38 فیصد بنجر زمین اور چٹانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ سوشل فارسٹ صرف 0.61 فیصد پر محیط ہیں۔ جنگلات کا 70 فیصد حصہ دیامر میں نجی ملکیت میں ہے جس کی وجہ سے حکومتی نگرانی محدود ہے۔ غربت، ایندھن کے طور پر لکڑی پر انحصار، تعمیرات کے لیے متبادل ذرائع کی کمی اور 1980 کی دہائی کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہونے والا نقصان اس مسئلے کی سنگینی میں اضافہ کرتے رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے 1993 میں کٹائی پر مکمل پابندی عائد کی گئی، تاہم اس کے بعد غیر قانونی کٹائی میں مزید اضافہ ہوا۔ 1998 سے 2020 تک پانچ ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کرائی گئیں اور 2016 و 2020 میں سپارکو کے تعاون سے جنگلات کی سیٹلائٹ میپنگ اور کاربن اسٹاک اسیسمنٹ کی گئی۔ 2025 کے لیے نیا کاربن اکاؤنٹنگ منصوبہ بھی تیار کیا جا رہا ہے جبکہ ڈرونز اور سی سی ٹی وی کے ذریعے مانیٹرنگ کے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ گرین پاکستان پروگرام، ٹین بلین ٹری سونامی، گلگت بلتستان فارسٹ ایکٹ 2019 اور جنگلات کے تحفظ کے لیے خصوصی فورس کے قیام جیسے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔
تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ فارسٹ فورس میں 35 فیصد عہدے خالی ہیں، عملے کی کمی بدستور موجود ہے، عدالتوں میں کارروائیوں میں نرمی دکھائی جاتی ہے اور پولیس تعاون بھی ناکافی ہے۔ جنگلاتی زمین کی واضح حد بندی نہ ہونے کے باعث رہائشی و کمرشل منصوبوں کے لیے الاٹمنٹ بڑھ رہی ہے جبکہ کان کنی اور سیاحت بھی جنگلات پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
کمیونٹی کی شراکت داری کے طور پر ٹرافی ہنٹنگ پروگرام، نان ٹمبر فارسٹ پروڈکٹس پالیسی، فارسٹ نرسریاں اور پودوں کی مفت فراہمی جیسے اقدامات کیے گئے ہیں، جبکہ کاربن فنانس اور ایکو سسٹم سروسز کے تحت مقامی کمیونٹیز کو معاوضے دینے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر جنگلات کی کٹائی کے اس موجودہ رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کا ماحولیاتی توازن شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے، پانی کی قلت اور قدرتی آفات کے بڑھنے کے خدشات مزید گہرے ہو جائیں گے۔