مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے بڑھتے ہوئے استعمال نے جہاں زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں انسانی دماغ کی کارکردگی پر بھی گہرے اثرات ڈالنے شروع کر دیے ہیں بالخصوص یادداشت اور تنقیدی سوچ میں کمی کے حوالے سے ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق، جیسے جیسے لوگ معلومات کے لیے اے آئی اور ڈیجیٹل آلات پر انحصار بڑھا رہے ہیں، ویسے ویسے وہ اپنے دماغ کو کم استعمال کرنے لگے ہیں۔
نتیجتاً، چیزیں یاد رکھنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی پر ضرورت سے زیادہ انحصار دماغی مشق میں کمی کا باعث بن رہا ہے، جو تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کے زوال کی طرف اشارہ ہے۔
تعلیم کے شعبے میں بھی اس رجحان کے اثرات نمایاں ہیں۔ روایتی تدریسی طریقے، جو طلبہ کی یادداشت اور ذہنی مشق کو فروغ دیتے تھے، اب بڑی حد تک ٹیکنالوجی نے بدل دیے ہیں۔
اس کے نتیجے میں طلبہ کی معلومات یاد رکھنے اور تنقیدی انداز میں سوچنے کی صلاحیتیں کمزور پڑ رہی ہیں۔
محققین تجویز دیتے ہیں کہ تعلیمی نظام کو اس انداز میں ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ اے آئی کو مددگار آلے کے طور پر استعمال کیا جائے، نہ کہ انسانی ذہانت کا متبادل بنایا جائے۔
یادداشت کو مضبوط بنانے، معلومات دہرانے اور ذہنی مشق کو نصاب کا حصہ بنانا لازمی ہے تاکہ بچوں کی فکری نشوونما برقرار رہے۔
مزید برآں، ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اے آئی انسانی دل و دماغ کی فطری خصوصیات جیسے ہمدردی، تخلیقیت اور روحانی احساس — کی کبھی نقل نہیں کر سکتا۔
انسانی یادداشت صرف معلومات محفوظ کرنے کا عمل نہیں بلکہ جذبات، تجربات اور احساسات کا امتزاج ہے۔
جب ہم بچپن کے پسندیدہ کھانے کو یاد کرتے ہیں تو وہ صرف ذائقہ نہیں بلکہ باورچی خانے کی خوشبو، خاندان کی ہنسی اور اس لمحے کی گرمی کو بھی زندہ کر دیتا ہے یہی وہ پہلو ہے جو کسی مشین کے بس کی بات نہیں۔
یہ جذباتی گہرائی ایسی چیز ہے جسے کوئی مشین دہرا نہیں سکتی۔
اس کے باوجود، یادداشت کے انداز میں تبدیلی آ رہی ہے کیونکہ اب ہم ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
علمی سائنس کی تحقیقات نے ’گوگل ایفیکٹ‘ یا ’ڈیجیٹل ایمنیشیا‘ کی اصطلاح وضع کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ معلومات ان کے آلات پر آسانی سے دستیاب ہیں، تو وہ خود اسے یاد رکھنے کی کوشش کم کرتے ہیں۔
ماہرین نے ’علمی تکمیل‘ کا تصور پیش کیا ہے، جس میں انسانی دماغ کی گہری سمجھ اور اے آئی کی صلاحیتوں کو ملا کر کام کیا جائے تاکہ اے آئی کی پیش کردہ معلومات کو بہتر انداز میں سمجھا اور استعمال کیا جا سکے۔
چنانچہ ضروری ہے کہ انسان اپنی یادداشت اور فکری مشق کو برقرار رکھے تاکہ اے آئی کی مدد سے بہتر فیصلے کیے جا سکیں اور ذہنی صلاحیتوں کی کمی کو روکا جا سکے۔
برطانوی ماہر تعلیم کارل ہینڈرک کا کہنا ہے، ’سب سے جدید اے آئی آپ کی نقل کر سکتا ہے، لیکن آپ کے لیے سوچ نہیں سکتا۔ یہ کام مسلسل اور شاندار طریقے سے انسان کا ہی ہے۔‘
اس تیز رفتاری سے بدلتی دنیا میں، انسانی دماغ کی یادداشت، پیٹرن پہچاننے اور عمیق سوچ کی صلاحیتیں بدستور ناگزیر ہیں۔ انہی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا آج کی معلوماتی دنیا میں کامیابی کی کنجی ہے۔