پاکستانی عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی اقدامات کیے جا رہے ہیں، دفتر خارجہ

دفترِ خارجہ نے جمعے کو کابل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کے حوالے سے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا فائل فوٹو دفترِ خارجہ نے جمعے کو کابل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کے حوالے سے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا

دفترِ خارجہ نے جمعے کو کابل میں ہونے والے ممکنہ حملوں کے حوالے سے براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کارروائیاں افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گردوں کے خلاف جائز دفاع کے طور پر کی گئی ہیں۔ ترجمان دفترِ خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لیے کابل کے ساتھ مسلسل بات چیت اور تعاون ضروری ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے عوام کی سلامتی اور فلاح و بہبود کے لیے پرعزم ہے اور افغانستان کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے۔

شفقت علی خان نے مزید بتایا کہ سیکیورٹی آپریشنز انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے اور ان کا مقصد پاکستانی شہریوں کو دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔

یہ بیان جمعرات کی رات کابل میں ہونے والے دو دھماکوں کے بعد سامنے آیا۔ افغان میڈیا کے مطابق لڑاکا طیارے فضا میں پرواز کر رہے تھے اور خودکار ہتھیاروں کی فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔

دھماکے ایک گاڑی اور کمپاؤنڈ پر ہوئے، جن کا تعلق مبینہ طور پر ٹی ٹی پی سے تھا اور ہدف نور ولی محسود بتایا گیا۔

نور ولی محسود کی ہلاکت سے متعلق اطلاعات متضاد ہیں۔ پاکستان کے عسکری حلقوں سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے حملے کو ٹی ٹی پی قیادت کے لیے بڑا دھچکا قرار دیا۔

جبکہ ٹی ٹی پی کے حامی چینلز نے ایک آڈیو پیغام جاری کیا جس میں محسود نے اپنی موت کی خبروں کو ’دشمن کا پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کارروائی واقعی کابل میں کی گئی ہے تو یہ افغان دارالحکومت میں پاکستان کی پہلی کارروائی ہو سکتی ہے۔

حالانکہ پاکستان پہلے بھی افغانستان کے دیگر علاقوں میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کارروائیاں کر چکا ہے۔

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان کا صبر ختم ہو چکا ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں کہا کہ پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج کا صبر جواب دے چکا ہے۔

دوسری جانب کابل نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو پناہ نہیں دے رہا۔ پشاور میں ایک علیحدہ پریس کانفرنس کے دوران فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بھی پاکستان کے دفاع کے حق پر زور دیا اور کہا کہ افغانستان دہشت گردی کے لیے آپریشنل بیس کے طور پر استعمال ہو رہا ہے اور اس کے شواہد موجود ہیں۔

افغان حکام نے پاکستان پر الزام لگایا کہ اس نے ایک بار پھر افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور پکتیکا کے علاقے میں شہری بازار پر بمباری کی، ساتھ ہی کابل کی سرزمین کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

بھارت-افغانستان معاہدہ

دفترِ خارجہ نے نئی دہلی اور کابل کے درمیان ان کے طویل عرصے سے بند سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کے معاہدے پر کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

یہ معاہدہ نئی دہلی میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے درمیان ہونے والی بات چیت کے دوران طے پایا، جو 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت اور افغان حکومت کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح رابطہ تھا۔

ترجمان شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس کے اور اس ملک کے درمیان کا معاملہ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے، اور ہمارے پاس اس پر کوئی خاص تبصرہ نہیں ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ پاکستان کا مستقل مطالبہ یہی رہا ہے کہ افغانستان اپنی آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔

install suchtv android app on google app store