سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں وزارت اطلاعات و نشریات نے افغان ترجمان کے گمراہ کن بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ استنبول مذاکرات سے متعلق حقائق کو افغان طالبان نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔مزید بتایا کہ پاکستان نے افغان سرزمین پر موجود دہشتگردوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، افغان فریق کے دعوے پر پاکستان نے فوری طور پر تحویل کی پیشکش کی، پاکستان کا مؤقف واضح، مستقل اور ریکارڈ پر موجود ہے۔ وزارتِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف غلط بیانی قابلِ قبول نہیں، افغانستان کی جانب سے جھوٹے دعوے حقائق کے منافی ہیں۔
پاکستان نے واضح کیا کہ دہشتگردوں کی حوالگی سرحدی انٹری پوائنٹس سے ممکن ہے۔
پاک فوج کے سربراہ نے افغان طالبان کے رویے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان طالبان بھارتی حمایت یافتہ گروہوں ’فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان‘ کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کی پشت پناہی اور انہیں ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ رواں ماہ کے اوائل میں سرحدی جھڑپوں اور تعلقات میں تیزی سے بگاڑ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کو برقرار رکھا جائے گا۔
استنبول معاہدہ کئی دنوں کے ڈیڈلاک کے بعد ممکن ہوا تھا، جس کے دوران عمل تقریباً رک گیا تھا، لیکن ثالثوں نے دونوں وفود کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر بٹھایا، یہاں تک کہ پاکستانی وفد واپسی کی تیاری بھی شروع کر چکا تھا۔
پاکستانی اور افغان طالبان وفود کے درمیان بات چیت کے دوسرے دور کا آغاز ہفتے کو استنبول میں ہوا تھا، تاہم کابل سے مسلسل دہشت گرد حملوں پر اسلام آباد کی دیرینہ تشویش ایک بڑا اختلافی نکتہ بنی رہی تھی، جس کے باعث مذاکرات میں تعطل پیدا ہوگیا، تاہم بدھ کو پاکستان کی جانب سے مذاکرات کے ناکام ہونے اور وفد کی واپسی کے اعلان کے بعد ترکیہ اور قطر نے ایک بار پھر مداخلت کر کے مذاکراتی عمل کو بحال کیا اور بالآخر پیش رفت ممکن ہوئی تھی۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جنگ بندی کے نفاذ کے مزید طریقہ کار پر تفصیلی غور و خوض 6 نومبر کو استنبول میں ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
اعلامیے میں اگرچہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ’اعلیٰ سطح کے اجلاس‘ میں کن رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے، تاہم امکان ہے کہ اس سے مراد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع ہیں جنہوں نے دوحہ میں مذاکرات کے پہلے دور کی قیادت کی تھی اور اب وہ استنبول میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔
30 اکتوبر کو آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا تھا کہ پاکستان افغانستان سمیت اپنے تمام ہمسایوں سے امن چاہتا ہے، تاہم افغان سرزمین سے دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔
آرمی چیف نے واضح کیا تھا کہ افغانستان کی جانب سے مسلسل دہشت گردی کے باوجود پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں تحمل کا مظاہرہ کیا اور پاک-افغان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سفارتی اور معاشی سطح پر متعدد اقدامات کیے۔