اردو ادب کے منفرد لہجے کے شاعر، احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 17 سال گزر گئے، لیکن ان کی شاعری آج بھی دلوں کو چھو لیتی ہے۔
"اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں" جیسے لازوال اشعار لکھنے والے احمد فراز نے اردو شاعری کو ایک نیا رنگ دیا، جہاں خواب، محبت، جدائی اور بغاوت سب ایک ساتھ بولتے ہیں۔
احمد فراز 12 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ادب انہیں ورثے میں ملا اور تعلیم کے میدان میں بھی انہوں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ اردو، فارسی اور انگریزی میں ماسٹرز کیا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ 1960 کی دہائی میں منظر عام پر آیا جب وہ طالبعلم ہی تھے۔
فراز کی شاعری کو بڑے گلوکاروں نے اپنی آواز دے کر زندہ جاوید کر دیا۔ مہدی حسن اور نور جہاں جیسے لیجنڈری فنکاروں نے ان کی غزلوں کو گایا اور امر کر دیا۔ ان کی شاعری صرف رومانس نہیں، بلکہ سیاسی شعور، معاشرتی تلخیوں اور انسانی جذبات کی خوبصورت ترجمانی بھی ہے۔
چھ دہائیوں پر محیط ادبی سفر میں احمد فراز کو ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، ہلال پاکستان سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کے معروف مجموعوں میں جاناں جاناں، خواب گل پریشاں، بے آواز گلی کوچوں میں، میرے خواب ریزہ ریزہ اور دیگر شامل ہیں۔
احمد فراز کا انتقال 25 اگست 2008 کو ہوا، لیکن ان کے اشعار آج بھی سننے والوں کے دلوں میں تازگی پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ شاعر جنہوں نے خوابوں کو لفظوں کا لباس پہنایا، آج بھی اپنی شاعری کے ذریعے زندہ ہیں۔