اردو ادب میں قتیل شفائی بطور شاعر اپنی غزل گوئی کے ساتھ فلمی گیتوں کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔
وہ ترقی پسند شعرا میں سے ایک تھے جنھیں پاکستان میں سرکاری سطح پر اور متعدد ادبی تنظیموں نے بھی اعزازات سے نوازا۔
ہمیں تماشہ بنانا آتا ہے
دریا کو باندھنا نہیں آتا
قتیل شفائی کی غزلیں مشہور گلوکاروں نے گائیں پاکستان ہی نہیں بھارت اور دیگر ممالک میں مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا ۔
مدراس کے مشاعرے میں جب میں اپنا کلام سن چکا تو دیکھا کہ لمبی داڑھیوں والے دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔
کہنے لگے کہ مشاعرے کے دوسرے دور میں آپ اپنی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘سنائیں۔
میں نے ہزار سمجھایا کہ وہ فلم کی غزل ہے اور آپ مجھ سے یہ سن کر بہت بے مزہ ہوں گے۔
مگر وہ نہ مانے اور کہنے لگے کہ ہمیں یہ غزل آپ کی زبان سے سننے کی بڑی تمنا ہے۔
میں نے تحت اللفظ یہ غزل پڑھی۔ اور اس پر مجھے جو داد ملی وہ ناقابل فراموش ہے۔
مجھ سے اس کا ایک ایک مصرح چار چار بار پڑھایا گیا اور پتا چلا کہ یہی وہ غزل تھی جس کی وجہ سے مجھے وہاں بلایا گیا تھا۔
وہیں سے ہم احمد آباد گئے جہاں پرانے مسلمان بادشاہوں کے آثار دیکھے ۔ ایک مسجد میں پتھر کی جالیاں دیکھیں۔
ہمارے ساتھ مشہور خاتون سیدہ اختر حیدر آبادی تھیں جو خاکسار تحریک میں بھی کام کر چکی تھیں۔
انہیں خطیبۂ ہند بھی کہا جاتا تھا۔ مشاعروں اور دوسری تقاریب میں ہر جگہ آگے آگے رہتی تھیں۔
جب ہم مینار کے اوپر چڑھے تو یہ ذرا سا ہلتا ہوا نظر آیا۔ سیدہ اختر سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔
جب ہم مینارِ لرزاں سے نیچے اترے تو کہنے لگیں کہ دیکھا میں نے کہا تھا کہ یہ مینار ہلتا ہے۔
میں نے کہا بیگم اختر یہ مینار ہمارے ہلانے سے تو نہیں ہلا البتہ آپ کے اوپر جانے سے ہلا ہے۔
وہ یہ جملہ سننے کے بعد بالکل خاموش ہو گئیں اور اس کے بعد جتنا عرصہ ہم ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بول چال بند رکھی