گاڑی، کشتی یا طیارے میں سفر کے دوران لوگوں کو متلی، قے، سر چکرانے اور دیگر مسائل کا سامنا ہو تو اسے موشن سکنس کہا جاتا ہے۔
اگر آپ بھی ان میں سے ہیں تو گاڑی میں سفر کے دوران متلی یا قے کی شکایت غیرمعمولی بات نہیں۔
مگر اب ماہرین نے اس سے بچنے کا آسان ترین طریقہ دریافت کیا ہے اور وہ موسیقی کو سننا۔
چین کی یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ موشن سکنس ایسا عارضہ ہے جس کے باعث بیشتر افراد کے سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے لیے دستیاب ادویات کے اپنے مضر اثرات ہیں جیسے غنودگی کا سامنا ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق موسیقی اس مسئلے سے بچنے کا آسان طریقہ ہے جس کے لیے کسی خرچے کی بھی ضرورت نہیں۔
تحقیق میں 40 افراد کو شامل کیا گیا جن کو ڈرائیونگ اسمولیٹر کے ذریعے موشن سکنس کا شکار بنایا گیا۔
اس کے بعد ایسے افراد کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جن کو ماضی میں اکثر گاڑی میں سفر کے دوران سر چکرانے کا سامنا ہوتا تھا۔
ان افراد کو ای ای جی کیپس پہنائی گئیں تاکہ موشن سکنس کے سگنلز کی شناخت کی جاسکے۔
پھر ان افراد کو 6 گروپس میں تقسیم کیا گیا جن میں سے 4 میں موسیقی کے تجربات کیے گئے، ایک گروپ کو موسیقی سے دور رکھا گیا جبکہ چھٹے گروپ پر اسمولیٹرز کے تجربات روک دیے گئے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ خوشی کا احساس دلانے والی موسیقی کو سننے سے موشن سکنس سے نجات ملتی ہے۔
درحقیقت ایسے گانے موشن سکنس سے بچانے میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے اور ان کو سننے سے گاڑی کے سفر کے دوران سر چکرانے یا متلی کا خطرہ 57.3 فیصد تک کم ہو گیا۔
اس طرح مدھر موسیقی کو سننے سے موشن سکنس کا امکان 56.7 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔
جذباتی گانوں کو سننے سے یہ امکان 48.3 فیصد جبکہ المیہ موسیقی کو سننے سے یہ خطرہ 40 سے 43 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
ای ای جی ڈیٹا سے ان افراد کی دماغی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا اور دریافت ہوا کہ موشن سکنس سے ان میں تبدیلیاں آتی ہیں۔
تحقیق کے مطابق جب کوئی فرد موشن سکنس کا شکار ہوتا ہے تو ای ای جی میں دماغی سرگرمیوں کی پیچیدگی گھٹ گئی۔
البتہ جیسے جیسے ان کی حالت بہتر ہوئی، ای ای جی میں دماغی سرگرمیوں کی سطح بڑھ گئی۔
محققین کے خیال میں مدھر موسیقی سے اعصاب کو سکون پہنچتا ہے اور موشن سکنس کا اثر گھٹ جاتا ہے، اسی طرح خوشی کا احساس دلانے والے گانے لوگوں کا دھیان بھٹکا کر اس مسئلے سے بچاتے ہیں۔
المیہ موسیقی سے متضاد اثر ہوتا ہے کیونکہ ان سے منفی جذبات بڑھتے ہیں۔
محققین کے مطابق نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل فرنٹیئرز ان ہیومین نیورو سائنس میں شائع ہوئے۔