ہمارے معاشرے میں دو طبقات یا دو عوامل پائے جاتے ہیں؛ عوام و خواص
مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کا شعر ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
میں نے ڈھابے پر اسے گم صم دیکھا ہے ۔ اسکی معصوم نگاہوں میں ان گنت خواب ہیں ۔ وہ ہوٹل میں کام کرتا لیکن پڑھنا بھی چاہتا ہے ۔
قبلہ اول کی سرزمین کربلا کی مانند نوحہ کناں ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ وسیع و عریض کائنات خلق فرمائی۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ عظیم کائنات بغیر کسی مقصد کے تخلیق نہیں کی گئی۔ ہر شے ایک خاص ہدف و مقصد کے تحت وجود میں آئی۔ احقر نے جو کالم تحریر کیا اس کا بھی ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ عوام الناس اسے پڑھ کر اپنی اصلاح کریں اور صحیح مقاصد کا تعین کریں۔ اسی طرح حضرتِ انسان جو کہ اشرف المخلوقات ہے، بغیر ہدف اور مقصد کے اس دنیا میں نہیں بھیجا گیا۔ انسان پر اس دنیا کچھ اہم امور کی انجام دہی فرض قرار دی گئی ہے۔
چاند رات کو شاپنگ پر جاتے ہوئے گلی میں کچھ بچوں پر نگاہ پڑی ۔۔نجانے ایک بچے سے بات کرنے کو جی چاہا ، اسے بلایا تو وہ سہما ہوا میرے نزدیک آ گیا ۔
گذشتہ دنوں ایک افطار پارٹی میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں موجود ہر شخص ایسے تیا رہوا تھا کہ جیسے یہ مقدس محفل نہیں بلکہ کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہے ۔ کیا کجھور تھی تو کیا پھل فروٹ سب پر جیسے ہر کوئی جھپٹ رہا تھا ۔ اسی چھینا چھپٹی میں بہت سا رزق ضائع بھی ہو رہا تھا لیکن کسی کو کسی کی پروا نہیں تھی جو جس کے ہاتھ میں آرہا تھا اسی سے اپنی پلیٹیں لبا لب بھر رہا تھا ۔