یاماہا موٹر پاکستان لمیٹڈ (وائی ایم پی ایل) نے اپنی کاروباری حکمتِ عملی میں تبدیلی کے تحت ملک میں موٹر سائیکل اسمبلی آپریشنز ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعلامیے اور مجاز ڈیلرز کو بھیجے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ یاماہا اپنے مجاز نیٹ ورک کے ذریعے اسپیئر پارٹس کی فراہمی جاری رکھے گی اور ڈیلرز کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب اسٹاک یقینی بنایا جائے گا۔
کمپنی نے مزید وضاحت کی کہ وارنٹی اسکیم کے تحت کسٹمر سپورٹ اور وارنٹی سروسز بھی فراہم کی جاتی رہیں گی۔
یاماہا موٹر پاکستان 4 ماڈلز تیار کر رہی تھی جن کی قیمتیں 4 لاکھ 29 ہزار 500 روپے سے 4 لاکھ 93 ہزار 500 روپے تک تھیں۔
ان میں یاماہا وائی بی آر 125 بھی شامل ہے، جو لانچ کے وقت 1 لاکھ 29 ہزار 400 روپے میں دستیاب تھی لیکن روپے کی قدر میں کمی اور پیداواری لاگت بڑھنے کے باعث اس کی قیمت 4 لاکھ 71 ہزار 500 روپے تک جا پہنچی۔
2012 میں یاماہا نے کراچی کے بن قاسم انڈسٹریل پارک میں ایک نئے اسمبلی پلانٹ کے قیام کے لیے 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔
یہ پلانٹ سالانہ 45 ہزار یونٹ تیار کرنے اور 10 برسوں میں 85 فیصد مقامی پرزہ جات کے استعمال کے ہدف کے ساتھ بنایا گیا تھا۔
آغاز میں کمپنی نے 25 فیصد مقامی پرزہ جات استعمال کیے اور پہلے مرحلے میں اسمبلی اور دفتری امور کے لیے 200 ملازمین بھرتی کیے تھے۔
مالی سال 2016 میں دو پہیہ گاڑیوں کی اسمبلی کا آغاز ہوا، جس دوران 20 ہزار 100 یونٹ تیار اور 16 ہزار 109 یونٹس فروخت کیے گئے۔
کمپنی کی پیداوار اور فروخت 2019 میں عروج پر تھی جب یاماہا نے 24 ہزار 811 یونٹ تیار کیے اور 23 ہزار 610 فروخت کیے۔
جو پاکستان میں اس کے 9 سالہ سفر کے دوران سب سے زیادہ فروخت تھی، تاہم، پیداوار اور فروخت میں کمی آنا شروع ہوئی اور مالی سال 2025 تک یاماہا کی پیداوار اور فروخت ریکارڈ کم سطح پر آگئی۔
صرف 4 ہزار 300 یونٹ تیار ہوئے اور 5 ہزار 709 فروخت ہوئے۔
اگرچہ مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں کچھ بہتری آئی، جب جولائی میں 500 یونٹ تیار ہوئے اور 586 فروخت ہوئے (جبکہ جولائی 2024 میں یہ تعداد بالترتیب صرف 100 اور 302 تھی)۔
لیکن یاماہا کو ہونڈا، سوزوکی اور چینی اسمبلرز جیسے بڑے حریفوں سے سخت مقابلے کا سامنا رہا۔
اکبر روڈ کے مجاز یاماہا ڈیلر محمد صابر شیخ نے اس سست روی کی وجہ گرتی ہوئی صارفین کی آمدنی اور کم قیمت بائیکس (عام طور پر ایک لاکھ تا ڈیڑھ لاکھ روپے) کی مانگ میں اضافے کو قرار دیا۔
یاماہا کی توجہ نسبتاً مہنگے ماڈلز پر مرکوز ہونے کی وجہ سے یہ عوامی مارکیٹ کے لیے زیادہ پرکشش نہیں رہی۔
صابر شیخ نے کہا کہ ایک منظم جاپانی اسمبلی پلانٹ کا بند ہونا ملک بھر کے وینڈرز اور ڈیلرز کے لیے تشویش ناک خبر ہے۔
بہت سے چینی بائیک اسمبلرز، ہونڈا کی مقبول CDI70cc بائیک کے معیار اور پائیداری کے مقابلے میں ناکام ہو کر پہلے ہی بند ہو چکے ہیں۔
فی الحال پاکستان میں لائسنس یافتہ 70 بائیک اسمبلرز میں سے صرف 10 سے 12 ہی فعال ہیں، جب کہ دیگر زیادہ تر الیکٹرک بائیکس (ای ویز) کی طرف جا رہے ہیں۔
صابر شیخ کے مطابق ’مستقبل الیکٹرک ہے اور پیٹرول سے الیکٹرک بائیکس پر منتقلی میں 2 سے 3 سال لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پیٹرول بائیکس مارکیٹ کے لیڈر اٹلس ہونڈا بھی الیکٹرک گاڑیوں میں قدم رکھ چکی ہے۔
ایک وینڈر نے بتایا کہ یاماہا کی مقامی پرزہ جات کی شرح کم تھی، جس کی وجہ سے قیمتیں زیادہ رہیں، کیوں کہ کمپنی درآمدی پرزہ جات پر انحصار کر رہی تھی۔
مزید برآں، بڑی بائیکس کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جو کئی مسافروں کو بٹھا سکیں، جب کہ یاماہا کے ماڈلز کو مقامی صارفین کے لیے کم عملی سمجھا جاتا تھا۔
ان تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کی موٹر سائیکل پیداوار مالی سال 2025 میں بڑھ کر 16 لاکھ 92 ہزار یونٹس ہو گئی۔
جو مالی سال 2024 کے 12 لاکھ 34 ہزار یونٹس کے مقابلے میں زیادہ ہے، جو اس شعبے میں بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے۔