دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے خلاف 2010ء میں یورپی کمیشن کو درخواست دی گئی تھی کہ وہ کسی بھی صارف کی طرف سے معلومات کی تلاش کے وقت دکھائے جانے والے نتائج میں غیر جانبداری سے کام نہیں لیتا۔
اس مقدمے میں گوگل کو ممکنہ طور پر جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور اسی لیے اب یہ ادارہ بظاہر اپنی اب تک کی پالیسی میں تبدیلیوں پر آمادہ ہو گیا ہے۔ گوگل ایک سرچ انجن کے طور پر اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ اب دنیا کی کئی زبانوں میں انٹرنیٹ پر معلومات کی تلاش کے لیے گوگل ایک فعل یا verb کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یعنی اگر آپ انٹرنیٹ پر کسی بھی طرح کی معلومات کی تلاش میں ہیں تو گوگل کیجیے۔
یورپی یونین کے رکن ملکوں میں صارفین انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی معلومات کی تلاش کے لیے 90 فیصد واقعات میں گوگل ہی کی ویب سائٹ استعمال کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر اب تک گوگل کا مقابلہ نہ تو یاہو سرچ انجن کر سکا ہے اور نہ ہی مائیکروسافٹ کی Bing کہلانے والی سروس۔ امریکا مائیکروسافٹ کی ہوم مارکیٹ ہے، لیکن وہاں بھی انٹرنیٹ سرچ کے شعبے میں بِنگ کا حصہ 10 فیصد سے بھی کم ہے۔
گوگل کے خلاف یورپی کمیشن کو دی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ جب گوگل پر کوئی انفارمیشن تلاش کی جاتی ہے، تو نتائج میں گوگل کی اپنی ذیلی کمپنیوں کی ویب سائٹس پر دستیاب معلومات کو ترجیح دی جاتی ہے.
یورپی یونین کے صحت مند کاروباری مقابلے سے متعلقہ معاملات کے نگران کمشنر کے ترجمان انٹوئن کولمبانی کے مطابق گوگل نے اب برسلز کو کئی ایسے تجاویز پیش کی ہیں، جن پر عملدرآمد کے ذریعے اس کی اب تک کی سرچ پالیسی میں کافی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
کولمبانی کے بقول فی الحال ان تجاویز کی تفصیلات کو منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوگل نے یورپی کمیشن کو یہ تجاویز اس لیے پیش کی ہیں کہ وہ ممکنہ طور پر برسلز کی طرف سے اپنے خلاف بہت بڑے مالی جرمانے کی سزا سے بچ سکے۔
یورپی کمیشن کے باخبر ذرائع کے مطابق ان تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ گوگل کی طرف سے آئندہ اس کے سرچ نتائج میں اس کی اپنی ذیلی کمپنیوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی علیحدہ سے تخصیص کی جائے گی اور ساتھ ہی حریف اداروں کی ویب سائٹس پر دستیاب معلومات بھی ان کے ویب لنکس کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں دکھائی جائیں گی۔
اگر یورپی کمیشن نے یہ تجاویز قبول کر لیں تو آئندہ کم از کم یورپی یونین میں انٹرنیٹ صارفین کو گوگل انجن پر سرچ کے نتائج باقی ماندہ دنیا کے صارفین کو ان کے ملکوں میں نظر آنے والے نتائج سے اس طرح مختلف ہوں گے کہ ان میں گوگل کے حریف اداروں کی طرف سے مہیا کردہ زیادہ معلومات شامل ہوں گی۔