سپریم کورٹ نے شہر میں بڑھتی بد امنی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا اخبار پڑھ کر چائے حلق سے نہیں اترتی، شہریوں کا تحفظ پولیس کے ذمہ ہے۔
کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کراچی میں گزشتہ سال انیس سو چوبیس ہلاکتیں ہوئیں، رواں سال اب تک اٹھارہ سوستاون افراد جاں بحق ہوچکے جس پر جسٹس خلجی نے کہا پھرآپ کیسے کہہ رہے ہیں امن وامان ٹھیک ہورہا ہے۔ سماعت کے شروع میں سپریم کورٹ نے پولیس افسران کی سیکورٹی پر آئے ہوئے تمام اہلکاروں کو واپس جانے کا حکم دیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ بھتے کامعاملہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ علاقے بانٹ لیے گئے ہیں، سیاسی بنیادوں پر نوگو ایریازموجود ہیں، ایک سیاسی کارکن دوسرے کے علاقے میں نہیں جاسکتا، اس سال زیادہ ہڑتالیں، بھتا خوری کی وارداتوں اور تاجروں کونشانہ بنانے کے خلاف ہوئے، کوئی تاجروصنعتکار محفوظ نہیں رہا، شہر میں کوئی ایسانہیں جو بھتانہ دے رہا ہو۔ جسٹس انور نے کہا کہ ہزاروں لائسنس یافتہ لوگ مرچکے لیکن اُن کے لائسنس استعمال ہورہے ہیں، جاری ہونے والے اسلحہ لائسنس کو رجسٹر کرنے کیلئے اشتہارات شائع کیے جائیں، چھ ماہ میں جو لائسنس رجسٹرڈ نہیں ہوا، اسے منسوخ اورجرمانہ عائد کیا جائے، ایم پی اے کودو سو ایم این ایزکو تین سو اسلحہ لائسنس جاری کرنے کا کوٹاکرپشن ہے، لائسنس بانٹ کر یہ لوگ ووٹ بینک مضبوط کرناچاہتے ہیں، یہاں آٹھ سےدس افراد کے قاتلوں کو بھی لائسنس جاری کیے گئے ہیں، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے بتایاکہ وزیر اعلیٰ کا لائسنس کوٹا لامحدود ہے۔ سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔