کشمیر پاکستان اور بھارت کے سنگم پر واقع چوراسی ہزار چار سو اکہتر مربع میل رقبے پر محیط ایک جنت نظیر خطہ جو مسلمانوں کی اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے، تحریک آزادیئ کشمیر کی اصل داستان 1925ء سے شروع ہو کر تاریخ کے صفحات پر خونی سفر طے کرتی دکھائی دیتی ہے۔
جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کا فارمولا منظور ہونے کے بعد برصغیر کی 562ریاستوں کو اختیار حاصل ہوا کہ وہ اپنی جغرافیائی، معاشی اور آبادی جیسے حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں۔ کشمیر کی اسّی فیصد آبادی مسلمان کی تھی، سرحدات کے چھ سو میل مغربی پاکستان کے ساتھ مشترک تھے۔ ان حقائق کے پیش نظر جموں کشمیر کا پاکستان سے الحاق لا زمی امر تھا۔ لیکن مہاراجہ ہری سنگھ، کانگریسی لیڈروں اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مل کر سازشوں کے جال بنے اور مسلمانانِ کشمیر کی خواہش کے بر عکس اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی۔
  مسلمانوں پر قیامتِ صغری ٹوٹ پڑی،،، مجاہدین نےتکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے پیش قدمی شروع کر دی۔ لشکر فتح ونصرت کے پھریرے لہراتا بارہ مولا تک پہنچ چکا تھا۔ فقط چند گھنٹوں میں سری نگر کے ہوائی اڈے پر قبضہ کر کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار کا دھارا بدل سکتا تھا۔ مگر افسوس!!!
 قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
 دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گئے
 سری نگر کے تاریکی میں ڈوبتے ہی ڈوگرہ نسل کے بزدل مہاراجہ نے بلا چوں وچرا گھٹنے ٹیک کر بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست پر دستخط کر دیئے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس درخواست کو منظور کر لیا۔ ابھی دستخطوں کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ اس دن میں پچاس پروازیں برق رفتاری سے سری نگر کے ائر پورٹ پر فوجی اتارنے لگیں، گورداسپور کے راستے بھارتی افواج نے جموں کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ سری نگر کے ہوائی اڈے پر بھارتی افواج، اسلحہ، ٹینک اور ائر فورس کے جہاز اترتے ہی جنگ کی کایا پلٹ گئی، بھارت جنگ کی تیاری پہلے سے کر چکا تھا، الحاق کی درخواست محض ایک بہانہ تھی۔اس کے ہاتھ آتے ہی بھارت اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہو گیا۔ اس صورتحال کے ادراک کے بعد جواہر لال نہرو نے ایک چال اور چلی اوراعلان کیا کہ بھارت کے ساتھ ریاست کے الحاق کا فیصلہ عارضی، وقتی اور ہنگامی تھا، حتمی فیصلہ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہ بیان ایک بین الاقوامی فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔ جوں جوں بھارت کا کشمیر پر قبضہ مستحکم ہوتا گیا اسی رفتار سے وہ اپنے مؤقف سے منحرف ہوتا گیا۔یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ اب بھارت سے اس مسئلے پر خیر کی توقع عبث ہے۔