پاکستان: ’قیمتی پتھروں سے مالامال ملک‘

پاکستان کے نایاب، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے نکالے جانے والے ان پتھروں کو بیرونی ممالک خاص طور پر یورپ اور امریکا میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔

وفاقی وزارت تجارت کے ادارے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور جم اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی پاکستان کے مطابق پاکستان میں جم سٹون کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ ان میں زمرد، روبی، ٹوپاز، جیڈ، عقیق وغیرہ شامل ہیں، جن کی کانیں خیبر پختون خواہ، بلوچستان، شمالی گلگت بلتستان، فاٹا اور کشمیر میں ہیں۔ اس کاروبار سے منسلک تاجروں کے مطابق ان معدنیات کی پوری دنیا میں مانگ ہے، لیکن بدقسمتی سے جتنی بھی برآمد کی جاتی ہے، وہ خام حالت میں ہوتی ہے، جس سے بہت کم زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔

گزشتہ تیس برسوں سے قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ پشاور کے رہائشی ذاکر خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کے سبب یہ ذخائر پہاڑ کی شکل میں کھڑے ملک اور قوم کی حالت پر افسوس کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے جم سٹونز کی امریکا، آسٹریلیا، دبئی، جرمنی، چین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کافی طلب ہے۔ وہ ان قیمتی پتھروں کے بارے میں کہتے ہیں، ”سوات کی کانین بہت قیمتی ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ان کو بہت پسند کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کے پنج شیر کے پتھروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پنک ٹوپاز ملتا ہے، جو دنیا میں اور کہی بھی نہیں ملتا اور یہ روبی کا مقابلہ کرتا ہے۔“

ذاکر خان کہتے ہیں گو کہ پاکستان ان قیمتی پتھروں سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر دوسرے ممالک کی اجارہ داری ہے، یہاں سے نکالے جانے والے اکثر قیمتی پتھروں کو امریکا، جرمنی اور برطانیہ کے باشندوں نے اپنے ناموں سے منسوب کیا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستان میں ان پتھروں سے متعلق لاعلمی اور وسائل کی کمی ہیں۔”منرلز یہاں پاکستان میں ہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ جرمنی اور امریکا میں ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے۔“

وہ کہتے ہیں کہ کچھ پتھروں کی یہاں پر قیمت چند ہزار روپوں سے ذیادہ نہیں ہے، جبکہ باہر ممالک میں ان کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں لگائی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے جم سٹون کے تاجر عزیز اللہ کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے ان کے علاقے سے قیمتی پتھروں کی نقل وحرکت پر عائد پابندی ابھی تک ختم نہیں کی گئی ہے، جس سے ناصرف ان کے کاروبار بلکہ ملک کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔”اس وقت گلگت بلتستان سے پتھروں کےتجارت پر پابندی لگائی گئی ہے۔ گلگت بلتستان سے جم سٹون کے ٹریڈ کو روکنے سے یہ تما م کاروبار متاثر ہورہا ہے۔“

ذاکراللہ (ممبر چیمبر آف کامرس، آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹ ایسوسی ایشن) کے مطابق گلگت بلتستان میں پتھروں کے تجارت پر حکومت کی طرف سے پابندی اس کو صوبے کا درجہ دینے کے فورا بعد لگائی گئی تھی، جس کے خاتمے کے لئے ابھی وزیراعظم کی طرف سے ایک نوٹیفیکشن جاری کیا گیا ہے، لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ امید ہے کہ جلد ہی یہ پابندی ختم کر دی جائے گی۔

عزیزاللہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب بھی سینکڑوں اقسام کے مزید نایاب اور قیمتی پتھر موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق ، سمجھ اور مہارت کی ضرورت ہے۔ ملک میں 95 فیصد جم سٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں ۔ حکومت کو ناصرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

install suchtv android app on google app store