اگر 8 مسلم ممالک کی مشترکہ ترامیم شامل نہ کی گئیں تو غزہ امن منصوبہ قابل قبول نہیں ہوگا: اسحٰق ڈار

  • اپ ڈیٹ:
وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار فائل فوٹو وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کیے جانے کے ایک روز بعد ہی اس کے مسودے پر اختلافات کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ یہ بات منگل کو وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار کی پریس کانفرنس میں بھی سامنے آئی، جہاں انہوں نے واضح کیا کہ اگر 8 مسلم ممالک کی مشترکہ ترامیم شامل نہ کی گئیں تو امریکا کا غزہ امن منصوبہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ یہ دستاویز امریکا نے جاری کی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز خود کو اس منصوبے سے الگ ظاہر کر رہے ہیں۔

تاہم، صدر ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اس منصوبے کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ یہ ہمارا مسودہ نہیں ہے، جو ہم نے انہیں بھیجا تھا اس میں کچھ اہم نکات شامل کرنے کی درخواست کی گئی ہے، اور اگر وہ شامل نہ ہوئے تو بعد میں انہیں شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے اعلان کو "ان کی طرف سے اعلان" قرار دیا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان 8 مسلم ممالک کی جانب سے دیے گئے مشترکہ اعلامیے پر قائم ہے، اور اگر کوئی فرق ہو تو وہ اسی پر عمل کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے بتایا کہ ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے میں فلسطینیوں کی ایک آزاد ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔

جس کی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا، اور زیادہ تر فلسطینی افسران اس میں شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ زمین پر فلسطینی قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہوں گے، اور ان کی مدد کے لیے علیحدہ افواج بھی تعینات کی جائیں گی۔

انڈونیشیا نے اس کے لیے 20 ہزار فوجی دینے کی پیشکش کی ہے، اور پاکستان کی قیادت بھی اس بارے میں فیصلہ کرے گی۔

یہ فورس صرف غزہ کے لیے مخصوص ہوگی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دستاویزی شکل میں درج کی جائے گی۔

پریس کانفرنس کے دوران اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کا مقصد امت مسلمہ کے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کی عوام کی مشکلات ختم کرنا تھا۔

پاکستان سمیت 8 ممالک نے اس معاملے کو صدر ٹرمپ کے سامنے فعال انداز میں اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات کا مقصد غزہ میں جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ ترسیل، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی روکنا، بے گھر افراد کی واپسی، غزہ کی تعمیر نو، اور اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق کی کوششوں کو روکنا تھا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ٹرمپ سے کہا گیا کہ وہ تعاون کریں۔

اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اجلاسوں کی تفصیلات خفیہ رکھی جائیں گی۔ اسحٰق ڈار نے مزید بتایا کہ سعودی ہم منصب نے پیغام بھیجا کہ 5 ممالک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہو گئے ہیں۔

اور پاکستان کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ انہوں نے انڈونیشیا اور یو اے ای سے بھی رابطہ کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے کچھ ترامیم تجویز کیں، سعودی وزیر خارجہ سے دوبارہ بات کی، اور پھر نظرثانی شدہ مسودہ وصول ہوا جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔

دو ریاستی حل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور باقی 7 ممالک بھی ہمارے موقف کے ساتھ ہیں۔

مسودے میں تبدیلیاں

امریکی میڈیا ایگزیوس کے مطابق، موجودہ معاہدہ اس سے کافی مختلف ہے جس پر پہلے امریکا اور عرب و مسلم ممالک متفق ہوئے تھے، اور اس کی وجہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی مداخلت تھی۔

اہم رکاوٹ اسرائیلی انخلا کے طریقۂ کار اور وقت سے متعلق ترامیم تھیں، جنہیں نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس کے ایلچی اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر کے ساتھ 6 گھنٹے کی ملاقات میں شامل کروایا۔

ان ترامیم کے مطابق، اسرائیل کا انخلا حماس کے غیر مسلح ہونے کی پیش رفت سے مشروط ہوگا، اور اسرائیل کو اس پر ویٹو کا حق حاصل ہوگا۔

حتیٰ کہ اگر تمام شرائط پوری ہو جائیں اور انخلا کے تین مراحل مکمل ہو جائیں، تب بھی اسرائیلی فوجیں ایک ’سیکیورٹی پَریمیٹر‘ کے اندر رہیں گی۔

جب تک کہ غزہ کو دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کے خطرے سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔

اگرچہ بظاہر کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن ایگزیوس کے مطابق سعودی عرب، مصر، اردن اور ترکی کے حکام پسِ پردہ سخت ناراض تھے۔

قطر نے حتیٰ کہ امریکی انتظامیہ کو منصوبہ جاری نہ کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وائٹ ہاؤس نے یہ منصوبہ پھر بھی جاری کر دیا اور عرب و مسلم ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس کی حمایت کریں۔

نتیجتاً 8 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں ٹرمپ کے اعلان کا خیرمقدم کیا گیا لیکن اس کی مکمل حمایت نہیں کی گئی۔

حماس کیلئے ڈیڈ لائن

قطر اور مصر نے جب پیر کو یہ 20 نکاتی منصوبہ حماس کو دیا تو صدر ٹرمپ نے گروپ کو 3 سے 4 دن کی مہلت دی کہ وہ اس پر عمل درآمد قبول کرے، ورنہ ’انتہائی افسوس ناک انجام‘ کے لیے تیار رہے۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اور عرب رہنما منصوبے کی منظوری دے چکے ہیں اور اب صرف حماس کے فیصلے کا انتظار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس یا تو کرے گی یا نہیں کرے گی، اور اگر نہیں کرے گی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔

بی بی سی سے گفتگو میں حماس کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ یہ منصوبہ غالباً مسترد کر دیا جائے گا، کیوں کہ یہ اسرائیل کے مفاد میں ہے اور “فلسطینی عوام کے مفادات کو نظرانداز کرتا ہے۔

ذرائع کے مطابق حماس کے لیے اپنے ہتھیار ڈالنا اور غیر مسلح ہونا ناممکن شرط ہے۔

install suchtv android app on google app store