رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح 15 فیصد تک ہونی چاہیے تاہم ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 25 سے 28 فیصد، بھارت اور چین میں 30 سے 35 فیصد جبکہ پاکستان کے شہری علاقوں میں 40 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے گائنی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر تنویر جمال کے مطابق گزشتہ کچھ سالوں سے آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کی کمی اور لاعلمی ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے اور اسی کشمکش میں زچگی کا کیس اتنا سنگین ہو جاتا ہے کہ نوبت آپریشن تک جا پہنچتی ہے۔
اس بارے میں ڈاکٹر تنویر جمال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”آپریشن کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں، جیسے کہ بہت زیادہ خون کا بہنا، ماں کے پیٹ میں بچے کی سمت کا درست نہ ہونا یا پھر پانی کا ٹوٹ جانا۔ اس قسم کی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جن کا ذکر کتابوں میں بھی ہے، لیکن اکثر جب کوئی مریضہ ہمارے پاس آتی ہے تو وہ اتنی نازک صورتحال میں ہوتی ہے کہ ہمیں مجبورا آپریشن کرنا پڑتا ہے۔“
ایک اور ماہر ڈاکٹر مدیحہ اقبال کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مریضہ کو آپریشن کی ضرورت پیش نہ آئے اور نارمل ڈیلیوری ہو جائے لیکن بعض اوقات گائنی کالوجسٹ کے پاس اور کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کی طرف سے دوران حمل احتیاط نہ کرنے کے باعث زچہ و بچہ دونوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔