سعودی عرب میں آج کل حاجیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور سعودی عرب ہی وہ ملک ہے، جہاں ’MERS-CoV‘ وائرس پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا تھا۔ یہ مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس کا مخفف ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ستمبر 2012ء سے لے کر اب تک 138 افراد میرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ میرس سے متاثر ہونے والے سب سے زیادہ واقعات سعودی عرب میں سامنے آئے جبکہ اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی اس وائرس کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ تاہم رواں برس اپریل سے میرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل ہوتا جا رہا ہے۔
بون یونیورسٹی کے ماہر سمیات کرسٹیان ڈروسٹے ’Christian Droste‘ کے لیے یہ صورتحال قابل تشویش ہے۔ 140 افراد اس وائرس کا شکار ہیں اور ان میں سے نصف ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ شرح اموات بہت زیادہ ہے‘‘۔
سعودی عرب میں اس وقت حاجیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ میرس کے منظر عام پر آنے کے بعد سے سعودی حکام نے اس سلسلے میں آگاہی دینا بھی شروع کی ہوئی ہے۔ سعودی وزارت صحت نے حاملہ اور عمر رسیدہ افراد کو حج اور عمرہ نہ کرنے کی تلقین کی ہے۔ حالانکہ حاجیوں میں اس وائرس کی موجودگی کا ابھی تک ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ کیا سعودی حکام کا رد عمل ضرورت سے زیادہ ہے؟ کرسٹیان ڈروسٹے اس کی نفی کرتے ہیں۔ ’’ میرے خیال میں یہ بہت ہی مناسب رد عمل ہے۔ اس سلسلے میں آگاہی دینا بہت ضروری ہے کہ یہ میرس کس طرح حملہ کرتا ہے۔ اس صورت میں تمام حاجی خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کر سکیں گے‘‘۔