پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا متعدد بچوں کا علاج اب انتقالِ خون کے بجائے دواؤں سے کیا جا رہا ہے۔
پشاور میں قائم فلاحی ادارے حمزہ فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اعجاز علی خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کراچی کے ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے دس سال کی تحقیق کے بعد ہائیڈرو آکسی یوریا کیپسول متعارف کروائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گو کہ یہ دوا 2003ء میں صرف بلڈ کینسر کے مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی تھی لیکن اب اسے تھلیسیمیا کے خلاف استعمال کیا جا رہاہے، جس کے استعمال کے بعد مریضوں کو خون دینے کی ضروت نہیں ہوتی اور وہ اپنے معمول کے کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:’’یہ تھلیسیمیا اور تھلیسیمیا میڈیسن کے میدان میں ایک انقلابی دوا ثابت ہوئی ہے اور یہ اس مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے زندگی کی ایک امید ہے۔“
اس فاؤنڈیشن کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق خان کا کہنا ہے: ’’ہم نے تھلیسیمیا کے 140 مریضوں پر یہ دوا استعمال کی اور ان میں سے25 مریضوں کو گزشتہ نو مہینوں سے خون دینے کی ضرورت نہیں پڑی۔“
اس سلسلے میں ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس دوا کی وجہ سے ملک بھر میں چالیس فیصد مریضوں کا کامیابی سے علاج کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پر مزید تحقیق بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر انصاری نے مزید کہا کہ اس دوا کے استعمال کے بعد ملک بھر میں بلڈ بینکوں پربوجھ کم ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا: ”پاکستان میں موجود تھلیسیمیا میں مبتلا ایک لاکھ بچوں کے لیے خون کی اٹھارہ سے بیس لاکھ بوتلیں درکار ہوتی ہیں، اگر اس دوا کو استعمال کیا جائے تو ہم اس تعداد کو کم کر کے خون کی آٹھ سے دس لاکھ بوتلوں تک لا سکتے ہیں۔‘‘
ہائیڈروآکسی یوریا کے ذریعے اپنی سات سالہ بچی کا علاج کروانے والے محمد عارف کا کہنا ہے کہ جب ان کی بیٹی عام بچوں کی طرح اسکول جاتی ہے اور ان کی طرح کھیل کود میں حصہ لیتی ہے تو انہیں اس سے بہت خوشی ملتی ہے۔
خیال رہے کہ تھلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے جسم میں خون پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اوران کی زندگی کا انحصار انتقال خون پر ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا بچوں کو ہر ماہ ایک سے دو مرتبہ خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں بلڈ بینک کا منظم نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے متعدد کم عمر بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔