ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل مرض قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے شکار افراد کو اکثر اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ ہائی بلڈ پریشر یا فشار خون کا سامنا اس وقت ہوتا ہے
جب شریانوں سے گزرنے والے خون کا دباؤ مسلسل بہت زیادہ ہو۔ خون کی شریانیں تنگ ہو جائیں تو خون کا بہاؤ محدود ہو جاتا ہے۔ شریانیں جتنی زیادہ تنگ ہوں گی، بہاؤ اتنا کم اور بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہوگا۔ کینسر کے آسان علاج کے حوالے سے ماہرین کی اہم ترین پیشرفت-
وقت کے ساتھ یہ دباؤ بڑھ کر مختلف طبی مسائل جیسے امراض قلب، ہارٹ اٹیک یا فالج کا باعث بن سکتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ بہت عام ہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد اس کے شکار ہیں۔
درحقیقت بیشتر افراد کی ایک بہت عام غذائی عادت ہائی بلڈ پریشر کا شکار بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔ یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔ میک گل یونیورسٹی ہیلتھ سینٹر کی تحقیق میں بتایا گیا کہ زیادہ نمک سے بھرپور غذاؤں کے استعمال سے دماغی ورم متحرک ہوتا ہے جس کے باعث بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال ایک کروڑ سے زائد اموات ہائی بلڈ پریشر سے منسلک پیچیگیوں کے باعث ہوتی ہیں۔ اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغ ممکنہ طور پر اس مرض کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ ہے، خاص طور پر ایسے کیسز میں جن میں علاج سے فائدہ نہیں ہوتا۔
انہیں ایسا پانی دیا گیا جس کا 2 فیصد حصہ نمک پر مشتمل تھا، اتنی مقدار میں نمک انسانوں میں روزانہ کی بنیاد پر فاسٹ فوڈ وغیرہ سے جزو بدن بنتا ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ نمک کے استعمال سے دماغ کے ایک مخصوص حصے کے مدافعتی خلیات متحرک ہوکر ورم بڑھاتے ہیں اور ایک ہارمون کی سطح بڑھ جاتی ہے جس کے باعث بلڈ پریشر اوپر کی جانب جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہائی بلڈ پریشر کے حوالے سے دماغ کے کردار کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے حوالے سے تحقیق کرنا بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر دماغ سے پیدا ہوتا ہے اور اس دریافت سے نئے علاج کا دروازہ کھل جائے گا۔