فرانس کافکا: بدستور ایک ادبی معمّہ

اس سال تین جولائی کو جرمن زبان کے ممتاز ادیب فرانس کافکا کا 130 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ وہ تین جولائی 1883ء کو پراگ میں پیدا ہوئے اور اُن کا انتقال تین جون 1924ء کو ہوا۔ ان کی تحریریں آج بھی ایک معمّہ ہیں۔

کافکا کا لکھنے کا ایک اپنا ہی انداز تھا، جس تک رسائی ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔ اُن کی ادبی تخلیقات کی کئی طرح سے تشریح ہو سکتی ہے اور کئی قارئین اس بات کو پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے باوجود کافکا کی تحریریں اُن کے اپنے ماحول سے بھی مطابقت رکھتی تھیں اور آج بھی اجنبی معلوم نہیں ہوتیں۔

 

کافکا نے 1912ء میں ’دی میٹامارفوسز‘ یا ’کایا بدلی‘ کے نام سے ایک کہانی لکھی تھی، جو اُن کے اُن تجربات کو بیان کرتی ہے، جو اُنہیں اپنی بیماری کے دنوں میں ہوئے تھے۔ ایک بے بس انسان کے طور پر بستر پر پڑے پڑے اُن کی کمر تختہ ہو گئی تھی۔ جب اُنہوں نے سر اٹھا کر اپنے پھولے ہوئے پیٹ اور اپنی کمزور ٹانگوں کو ایک نظر دیکھا تو یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے کہ کیا یہ کسی انسان کا جسم ہے؟ اُنہیں لگا کہ یہ زمین پر رینگتے کسی بڑے سے قابل نفرت کیڑے کا جسم ہے، جو ابھی ایک شام پہلے تک ایک انسان تھا۔ کافکا کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ کہانی غالباً اُن کی سب سے مشہور کہانی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک انسان کتنا نازک ہے کہ راتوں رات اُس کی حیثیت بدل سکتی ہے اور وہ ایک پامال شخص بن سکتا ہے۔

 

کافکا کی زندگی میں بھی اُن کے بہت سے قارئین جہاں ایک طرف اُن کی تحریروں کے مداح تھے، وہیں اُن کے لیے یہ بات بھی ایک معمّہ تھی کہ آخر کیوں اُن کی کہانیاں ایک پہیلی کی طرح ہوتی ہیں۔ اپنے اسی طرزِ تحریر کی وجہ سے کافکا کو اپنی زندگی میں وہ شہرت نہ مل سکی، جس کے وہ حقدار تھے۔

install suchtv android app on google app store