اب تو دنیا میں شاید ہی کوئی زبان ہو جس کے ادب اور فنون وجودیت سے متاثر نہ ہوئے ہوں۔ ہر چند کے ستر کی دہائی تک آتے آتے وجودیت کے بارے میں کلیشے کی اصطلاح بھی استعمال ہونے لگی تھی لیکن یہ لیبل بھی وجودیت کے اثرات کے پھیلاؤ کو روک نہیں سکا۔
ادب میں دوستوفسکی، ابسن، کافکا، ژاں ژینے، اندرے ژید، اندرے مالروکس، خود سارتر اور سیمون دی بور کے علاوہ سیموئیل بیکٹ، کنٹ ہمسُن اور یوجین آئینسکو مصوروں اور مجمسے سازوں میں گیاکومٹی، جیکسن پولاک، ارشلے گورکی، اور ویلم ڈی کوننگ اور فلم سازوں جین لیو گودارد، اکیرا کروساوا، انگمار برگمان ستیہ جیت رے صرف چند ایک نام ہیں جو حافظے پر تھوڑا سا بھی زور دیے بغیر ذہن میں آ جاتے ہیں۔
جیسا کے کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے ڈاکٹر افتخار بیگ نے اسے ذات کا اثبات کرنے والی فکر کے طور پر لیا ہے اور اس کے لیے فلسفے کا لفظ بھی استعمال کیا ہے اگرچہ روایتی فلسفے والوں کو یہ بات اب تک اُسی طرح ہضم نہیں ہوئی جیسے اردو میں اب تک ایسے نقاد ہیں جن کا حاضمہ نثری شاعری کے نام پر خراب ہونے لگتا ہے۔
افتخار بیگ نے اردو کے ساتھ سیاسیات میں ماسٹرس کیا اور اس کے بعد اردو ہی میں ڈاکٹریٹ بھی کی۔ اب وہ لیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں تنقید کے علاوہ شاعری بھی کرتے ہیں اور ان کا ایک مجموعہ ’کبھی تم سوچنا‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک کتاب ’مجید امجد کی شاعری اور فلسفۂ وجودیت! اور ایک ’بیسویں صدی کی اردو شاعری پر وجودیت کے اثرات‘ کے نام سے آ چکی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ان کی چوتھی کتاب ہے۔