Logo
Print this page

گلگیت بلتستان کا دور دراز علاقہ (بوبند کی بدحالی)

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
ساجد حسین فائل فوٹو  ساجد حسین

بوبند استور کا ایک دور دراز نواحی علاقہ ہے جو تقریبا دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ بوبند چار بڑے گاوں میں مشتمل علاقہ ہے۔ جب ہم گدئی سے بائیں جانب کا رخ کرتے ہیں تو ایک کچی سڑک سے ہم بوبند کے بدنصیب گاوں میں داخل ہوتے ہیں۔

اس کٹھن اور خطرے سے بھر پور راستے سے گزرتے ہوئے ہم سب سے پہلا گاوں کھربے کے حدود میں داخل ہوتے ہیں اسی طرح کچھ فاصلہ طے کر کے جنت نظیر دوسرے گاوں بمروئی میں داخل ہوتے ہیں جو کہ بہت ہی دلکش اور پر رونق نظاروں سے بھر پور ہے۔ اسکے فورا بعد چند منٹ کی مسافت کے بعد یگم کا گاوں آتا ہے جو اونچے ڈھلوانوں پر مشتمل ایک خوبصورت گاوں ہے۔ کافی مشکل مسافت کے بعد ہم بوبند کے آخری گاوں میں داخل ہوتے ہیں جو کافی کٹھن اور مشکل راستہ طے کرنے کے بعد آتا ہے۔ بوبند کی جیو گرافی کے حوالے سے بات کی جائے تو مشرق کی سمت میں دیوسائی اور سکردو سے ملا ہوا ہے جس کا حدود لولو بٹ کے مقام کو سمجھا جاتا ہے۔ شمال کی جانب پری شینگ کا علاقہ ہے۔ جنوبی سمت میں چلم اور داس خریم کا علاقہ ملتا ہے اور مغرب کی جانب استور کا پورا علاقہ شامل ہے۔ بوبند کی تاریخ بہت پرانی ہے جس میں ایک بڑی خاندان آباد ہے جو کہ "المے" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ عالم شیر جو سکردو سے ہجرت کر کے بوبند میں اپنی سکونت اختیار کی اس وجہ سے المے کا نام مقبول ہو گئی۔ بوبند ایک دوردرازعلاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا بدنصیب علاقہ قرار پایا ہے جو سیاسی جماعتوں کا ایک مرکز اور سیاسی کوٹھے کی حثیت رکھتا ہے کوٹھا اس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ الیکش کے دوران ہمارے سیاسی لالچ خور کٹپلی آتے ہیں اور بھولے غیور عوام کو ورغلا کر گمراہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ بوبند کی بدحال عوام میں شعور تو ہے لیکن کوئی اچھا قائدانہ کردار ادا کرنے والا شخص آج تک میدان میں نہیں آیا۔ ہر کسی کو اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے۔ اپنے صفوں میں خود کو پروان چڑھانے کے بجائے دوسرے کے ہاتھوں یرغمال ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج بوبند کی پسماندگی اور بدحالی کا یہ عالم ہے کہ بہتر روڈ کی عدم دستیابی سے لوگ ہر طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہیں۔ تقریبا چھ سات مہینے برف سے ڈھکے رہنےکی وجہ سے بوبند میں حالات زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ بوبند کا علاقہ تقریبا 800 سے 1000 گھرانوں پر مشتمل ہے لیکن بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے لوگ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس بدنصیب علاقے کی اتنی پسماندگی ہے کہ بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان سب سے بڑی سہولت کا فقدان ٹرانسپورٹ کا ہے پورے بوبند کے علاقے میں ایک ہی گاڑی چلتی ہے جس پر لوگوں کی امید جمی رہتی ہے۔ سڑک کی خرابی کی وجہ سے وہ گاڑی بھی اپنے وقت کی پابند نہیں۔ دوسری سب سے بڑی قلت میڈیکل کا فقدان ہے جس کی بنا پر مقامی لوگ بہتر ہسپتال سے محروم ہیں بمشکل ایک ڈسپنسری ہے وہ بھی دوا نہ ہونے کی وجہ سے ویران پڑی ہے، اور لوگ گھٹ گھٹ کر مرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

آج دنیا اکیسویں صدی کے اس جدید ٹیکنولوجی کے نشے میں چور فور جی سروس سے لطف اندوز ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بوبند کا علاقہ موبائل سروس سے بھی محروم  ہے۔ یگم اور بمروئی کے کچھ گھرانوں میں PTCL ہے۔ فون موجود ہیں لوگ وہاں آکراپنے پیاروں کی خبر گیری کرتے ہیں۔ بوبند کی عوام کو بیوقوف بنا کر گمراہ کرنے والے تو آج بازار میں ہزاروں ملتے ہیں، لیکن ان کی اس مظلومیت کی آواز سننے کے لئے کوئی سامنے دیکھائی ہی نہیں دیتا۔ سیاسی کٹپتلی الیکش کے دوران پروانوں کی طرح نظر آتے ہیں اور لوگوں کی ضمیروں کو للکار کر وہی وعدے اور تسلیاں دے کر اپنے ووٹ ہھتیا لیتے ہیں بوبند کی معصوم عوام کو گمراہ کرنے میں وہ سیاست کے ہر ہربے کو اپنا کر اپنا نام روشن کرتے ہیں۔ آج افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بوبند کی سڑک کی منظوری آئے ہوئے آج دس برس بیت گئے لیکن آج بھی وہ سڑک ویران ہے اور تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکی۔ اس سے پہلے کیا اب بھی کوئی شخص بیمار ہوتا ہے یا کسی کی فوتگی ہوتی ہے تو لوگ برف کو پھلانگتے ہوئے سٹریچر کی مد لیتے ہیں اور اس شخص کو اپنی منزل تک پہنچاتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے اے وقت کے سیاسی فرعون کیوں بوبند کی عوام کو گمراہ کر کے انکی ضمیروں سے کھلواڑ کرتے ہو؟ کیوں کی بوبند کی عوامی آواز کو دبانے میں تلے ہوئے ہو؟ کیوں بوبند کی آواز کو آگے تک نہیں پہنچا رہے ہو؟ بوبند کی عوام کو بنیادی حقوق نہ ملنے پر لوگوں کا روجھان دن نہ دن ہجرت کرنے کی طرفبڑھ رہا ہے۔

بوبند کو ہر وقت پس پشت میں ڈالا گیا ہے اور عوام کے بنیادی حقوق کو غصب کر لیے گئے ہیں۔ آج بوبند میں بہتر نظام تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اتنا بڑا علاقہ ہونے کے باوجود بھی صرف اور صرف ایک مڈل سکول ہے وہ بھی خستہ حالت میں اپنی آبیتی بیان کرتا ہے۔ مقامی اساتذہ کو ہر وقت تبادلہ کرکے دوسرے علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے آخر یہ کیسا ستم ہے جو ہر وقت بوبند کی عوام کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ بوبندسیاحت کی نظر سے دیکھا جائے تو کسی سے کم نہیں جن میں بہت ہی دلکش سیاحتی مقامات پائے جاتے ہیں لیکن روڑ کی بہتر سہولت کی فقدان سے آج کوئی سیاح بوبند کی سرزمین پر قدم رکھنے سے عاری ہے۔ اب وقت آیا ہے بوبند کی عوام کو جاگنے کا انکو تمام تر سیاسی کٹپتلیوں سے اپنا دامن چھڑا کر ایک غیر سیاسی جماعت کا اجراء کرنا ہو گا اور اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے جنگ لڑنی پڑے گی۔ اے بوبند کی عوام کو چھوڑ دو یہ سیاسی کٹپتلیوں کی غلامی اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لئے سیاسی غلامی نہیں بلکہ اپنے صفوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ خدا را خدا را اب بھی سنبھل جائیں اور غفلت کی نیند سے جاگ جائیں پھر یہ نہ کہنا کہ ہم پسماندگی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ اگر علاقے کی بہتری اور خوشحالی چاہتے ہیں تو چھوڑ دیجئے یہ بے کار کی سیاسی پروپیگنڈے جس نے ہمیں کچھ نہیں دیا سوائے رسوائی اور رنج کے۔

install suchtv android app on google app store
Urdu News - پاکستان اور دنیا بھر سے بریکنگ نیوز، کھیل، صحت، تفریح، تجارت اور ٹیکنالوجی کی تازہ ترین اردو خبریں
All Rights Reserved © SUCH TV 2023. SUCH TV is not responsible for the content of external sites.