امریکا اپنی فوج نکالنے کی تیاری کیلئے وفد عراق بھیجے ورنہ؟ عراقی وزیر اعظم کے اس بڑے بیان نے امریکا اور نیٹو ممالک میں کھلبلی مچا دی

عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی فائل فوٹو عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی

عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے ملک سے اپنی فوج نکالنے کی تیاری کے لیے وفد عراق بھیجے۔

'اے ایف پی' کے مطابق عادل عبدالمہدی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فونک گفتگو میں عادل عبدالمہدی نے ان سے درخواست کی کہ 'عراق سے غیر ملکی افواج کے محفوظ انخلا کے پارلیمنٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے طریقہ کار طے کرنے کے لیے امریکا اپنے وفود بغداد بھیجے۔'

عراق کو دہشت گرد تنظیم 'داعش' کے حملوں سے بچانے میں مقام فورسز کی مدد کے لیے امریکا کے تقریباً 5 ہزار 200 فوجی وہاں مختلف بیسز میں تعینات ہیں۔

دہشت گردوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے 2014 میں عراقی حکومت کی درخواست پر غیر ملکی فوجیوں کو وہاں تعینات کیا گیا تھا۔

غیر ملکی فوجیوں کی تعیناتی ایگزیکٹو سطح پر معاہدے کی بنیاد پر کی گئی تھی اور اس کے لیے عراقی پارلیمنٹ سے منظوری نہیں لی گئی تھی۔

تاہم اتوار کے روز عراقی پارلیمنٹ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے ملک میں موجود ہزاروں امریکی فوجیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس حق میں قرارداد منظور کی گئی تھی۔

اس کے اگلے روز امریکی بریگیڈیئر جنرل ولیم سیلی نے اپنے عراقی ہم منصب کو لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ 'امریکی افواج عراق سے نکلنے کو تیار ہیں۔'

اس خط کی عراقی اور امریکی دفاعی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی جس میں امریکی بریگیڈیئر جنرل نے کہا تھا کہ ہم آپ کی جانب سے ہماری افواج کی روانگی کے حکمنامے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے امریکی افواج کی کسی دوسری جگہ تعیناتی کا عندیہ دیتے ہوئے خط میں مزید کہا کہ اس عمل کی انجام دہی کے لیے اتحادی افواج کو چند اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ عراق سے باہر نقل و حرکت محفوظ اور موثر طریقے سے انجام دی جا سکے گی۔

بعد ازاں پینٹاگون نے امریکی جنرل کی جانب سے عراقی ہم منصب کو عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے لکھے گئے خط کو 'غلطی' قرار دے دیا اور کہا تھا کہ یہ محض ایک 'مسودہ' تھا۔

تاہم عراق کے عبوری وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے پینٹاگون کے اس بیان کے برعکس بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے دفتر کو خط کی دستخط شدہ اور ترجمہ کی ہوئی نقول ملیں۔

انہوں نے واشنگٹن سے اس کے ارادے کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ امریکا کی سربراہی میں فوجی اتحاد نے بھی کہا تھا کہ وہ عراقی پارلیمنٹ کے فیصلے کے حوالے سے قانونی وضاحت چاہتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا نے 3 جنوری کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک فضائی حملے میں ایرانی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت دیگر افراد کو شہید کردیا تھا، جس کے بعد ایران نے امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیر اثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔

ایران نے اس حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکا نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔

اس واقعے کے بعد خطے میں بڑھتی کشیدگی پر یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں اس کا اثر امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے اس مذاکرات پر نہیں پڑے جو افغانستان میں 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے ہورہے ہیں۔

تاہم طالبان نے کہا امریکا اور ایران کے درمیان بڑھتی عسکری کشیدگی سے ان کے اور واشنگٹن کے درمیان ہونے والے مذاکرات متاثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔

install suchtv android app on google app store