بیجوں کی چکنائی دل کی بیماریوں اور کینسر سے بچاتی ہے

امراضِ قلب فائل فوٹو امراضِ قلب

گزشتہ تحقیقات کے برعکس سائنس دانوں نے اب انکشاف کیا ہے کہ بہت زیادہ گری دار میووں، بیج اور پودوں کا تیل کھانے سے مختلف امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔


طبّی تحقیقی جریدے ’بی ایم جے‘ میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پودوں اور بیجوں کی چکنائی دل کی بیماریوں اور کینسر سے بچاتی ہے، یہ تحقیق ایرانی ماہرین کی قیادت میں برطانیہ، سویڈن، ناروے اور کینیڈا کے ماہرین کی ٹیم نے کی۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ پودوں، گری دار میووں اور بیجوں میں قدرتی طور پر پائی جانے والی چکنائی ’الفا لینولینک ایسڈ‘ (اے ایل اے) سے نہ صرف ہمارا دل کئی طرح کی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ یہ سرطان (کینسر) کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے۔

’اے ایل اے‘ کا شمار اومیگا تھری فیٹی ایسڈز میں ہوتا ہے جو ہماری بنیادی غذائی ضروریات میں شامل ہیں۔ صحت کے نقطہ نظر سے اومیگا تھری فیٹی ایسڈز بہت ضروری ہیں لیکن انسانی جسم انھیں تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے انھیں مختلف غذاؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔

یہ رپورٹ ایک جامع تجزیہ (میٹا اینالیسس) ہے جس میں پچھلے 32 سال کے دوران ’اے ایل اے‘ اور انسانی صحت کے حوالے سے 41 تحقیقات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان تحقیقات میں مجموعی طور پر تقریباً 12 لاکھ افراد شریک ہوئے تھے۔

میٹا اینالیسس سے معلوم ہوا کہ روزمرہ غذا میں اے ایل اے کی مقدار میں صرف ایک گرام اضافے سے دل کی بیماریوں کا خطرہ 5 فی صد تک کم ہو جاتا ہے۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے مطابق سویابین، کینولا (میٹھی سرسوں) کے تیل، اخروٹ اور السی کے بیجوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی وافر مقدار پائی جاتی ہے جس میں ’اے ایل اے‘ بھی شامل ہے۔

مکئی اور سورج مکھی کے تیل میں اے ایل اے کی مقدار بہت کم جب کہ السی کے بیجوں میں سب سے زیادہ یعنی 45 سے 55 فی صد تک ہوتی ہے، سویابین، تلی کے تیل اور اخروٹ میں الفا لینولینک ایسڈ کی مقدار 5 سے 10 فی صد کے درمیان ہوتی ہے۔

میٹا اینالیسس سے یہ بھی پتا چلا کہ ’اے ایل اے‘ کی مناسب مقدار روزانہ استعمال کرنے والوں کے لیے کینسر کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے جب کہ کسی بھی دوسری بیماری کی وجہ سے ان میں موت کا امکان بھی کم رہ جاتا ہے۔

install suchtv android app on google app store