Logo
Print this page

'' سفید موت کے کارندے''

'' سفید موت کے کارندے'' فائل فوٹو

 رات کا اندھیرا تھا۔ موسائی قبیلے کی حدود میں باقی قبیلے سے ذرا دور ایک بڑے جھونپڑے میں پانچ نفوس بیٹھے تھے۔ سامنے ایک بہت بوڑھی عورت ذرا اونچی نشست پہ تھی جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ ان سب کے لیے سب سے زیادہ محترم ہے۔ اس کے سامنے تین مرد اور ایک عورت مؤدب بیٹھے تھے۔ان کے لباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ستر پوشی کے مقصد سے نہیں پہنا گیا بلکہ اپنے مقام اور عہدے کے اظہار کے لیے پہنا گیا ہے۔ جھونپڑے کے چاروں کونوں میں مشعلیں روشن تھیں جس سے وہ پانچوں ایک دوسرے کو بخوبی دیکھ سکتے تھے اوران سب کے چہروں پرسب سے پہلے نظر آنے والی شے پریشانی تھی جو بہت واضح تھی۔

’’سفید موت نے پھر اپنے کارندے بھیج دئیے ہیں۔

اب سے پچیس سال پہلے آخری بار وہ قبیلے تک آئے تھے اور ہمارے قبیلہ تقریبا ختم ہو گیا تھا ‘‘

بوڑھی عورت جو کہ یہاں کی سب سے پرانی کاہنہ تھی اور اکاچی کے نام سے جانی جاتی تھی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’اکاچی تمہیں پتا ہے پچھلی بار بھی ان سفید موت کے کارندوں سے قبیلے کو بچاتے بچاتے میرے اپنے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ان کا شکار ہوگئے۔ بس اب باکو بچا ہے۔ میں اس بار ان کارندوں کو

اپنے قبیلے تک نہیں آنے دوں گی‘‘۔ فیمی جو کہ قبیلے کی عظیم ماں کہلاتی تھی نے سردار باکو کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

اس قبیلے میں بھی افریقہ کے اور بہت سے قبائل کی طرح مادری نظام قائم تھا اور سب سے محترم درجہ عورتوں کو حاصل تھا۔

ان کے سب دیوی دیوتاؤں میں سب سے بڑی بھی ایک دیوی ہی تھی۔

اسی لیے قبیلہ کا سردار ہونے کے باوجود باکو پہ بھی اس کی ماں فیمی کا حکم چلتا تھا اور تب تک چلتا جب تک وہ زندہ رہتی اس کے بعد فیمی کی جگہ باکو کی پہلی بیوی کو مل جاتی۔

پھر فیمی نے اپنے پیچھے بیٹھے ایک مرد کو مخاطب کیا۔

’’ لیراتو! تم نے کتنے لڑاکا نگرانی پہ رکھے ہیں؟ اب تک کتنے سفید موت کے کارندے ہمارے جنگل کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش کر چکے ہیں؟‘‘
’’عظیم ماں! ایک دو کارندے تو سال میں ایک بار ادھر تک آجاتے ہیں ۔مگر ہمارے لڑاکا انہیں پہلے ہی بھگا دیتے ہیں مگر پچھلے ہفتے وہ آسمانوں سے ظاہر ہوئے اور لگ بھگ دس تھے۔

ہمارے لڑاکا گھبرا بھی گئے مگر کوششوں سے انہیں روکنے میں کامیاب ہو گئے اور پانچ کوتو وہیں مار کے مقدس شعلے کے حوالے کر دیا تاکہ ان کا جسم چھوڑ کے موت ہم پر حملہ نہ کر دے۔

مگر اس کے بعد سے حدود سے کچھ دور تقریبا روزانہ یہ کارندے نظر آرہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘‘ لیراتو جو کہ موسائی قبیلے کے لڑاکوں کا سربراہ تھا، نے پوری صورت حال تفصیل سے بتائی تاکہ یہاں موجود تمام افراد کو صحیح حالات پتا چل جائے۔

’’کیا سفید موت کے کارندے خونخوار ہیں بہت؟, وہ ہمیں مار کے کھا جائیں گے؟ '' امامو جو باکو کا سب سے بڑا بیٹا تھا اس نے پوچھا۔ یہ 9 سالہ کم سن ولی عہد آج کل ہر اہم معاملے میں ساتھ ہوتا تھا، تاکہ اگر باکوکسی حادثے خاص کر سفید موت کا شکار ہو جائے تو امامو سرداری سنبھال سکے۔

’’امامو یہ کارندے بہت دلکش ہوتے ہیں انہوں نے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا مگر ان کے آنے کے بعد دیوی ہم پر موت کا عذاب بھیج دیتی ہے ہمارے لوگ عجیب بیماریوں کا شکار ہو کر مرنے لگتے ہیں۔

ہم نے انہیں مارنا شروع کر دیا تو بھی ان کے جسموں میں چھپی سفید موت نے ہماراپیچھا نہیں چھوڑا۔

اب ہم انہیں مار کر مقدس شعلے کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ سفید موت ہم پہ حاوی نہ ہو اور دیوی ا سے واپس بلا لے۔‘‘ اکاچی نے نوعمر ولی عہد کو تسلی بخش جواب دیا۔

’’لیراتو میں سوچ رہا ہوں کہ اب سب قبیلے والوں کے پاس مقدس شعلہ ہو تاکہ کوئی کارندہ کہیں سے بھی داخل ہو اسے وہیں مقدس شعلے کے حوالے کر دیا جائے۔ اور بوڑھوں اور بچوں کے لیے

ایک بڑا جھونپڑا بنا کر اس کے گرد کچھ چست لڑاکا بٹھا دئیے جائیں اور مقدس شعلے سے حصار بنا دیا جائے۔‘‘ باکو نے لیراتو سے کہا اور باقی سب کی طرف دیکھا۔

’’ہاں ہمارے پاس وقت کم ہے۔ اب لگتا ہے کہ ہمیں اپنی ہر کوشش کر لینی چاہیے۔ فیمی، باکو اور لیراتو کل سے ہی یہ سب کام شروع کروا دو۔‘‘اکاچی نے کہا اور میٹنگ ختم کر دی گئی۔

موسائی قبیلے کے حدود سے کافی دور ایک قصبے میں ایک کمرے میں چند لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے کچھ ماہرین علم انسان تھے کچھ ماہرین عمرانیات تھے اور کچھ سائنسدان تھے ۔

ان سب کا موضوع وہ افریقی قبائل تھے جن سے اب تک مہذب دنیا کا رابطہ نہیں ہوا تھا۔

وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مہذب دنیا سے رابطے ان کی زندگیوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔مسئلہ یہ تھا کہ ان میں سے تقریبا ہر قبیلے میں ان کا داخلہ بہت مشکل تھا۔ وہ قبیلے گھنے جنگلوں میں چھپے تھے درندوں سے بچ کر وہاں تک زندہ پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔

آج کل ان کی توجہ موسائی قبیلے کی جانب تھی ۔ کچھ عمر رسیدہ ماہرین کے مطابق تقریبا پچیس سال پہلے آخری بار جب تحقیقاتی ٹیم وہاں پہنچی تھی تو وہاں پراسرار وبائیں پھوٹ پڑی تھیں آدھے سے زیادہ قبیلہ موت کا شکار ہو گیا تھا اور قبائلیوں نے اس کا ذمہ دار مہذب لوگوں کو ٹہرایا تھا۔

ان میں سے کچھ کو جلا دیا گیا اور کچھ جان بچا کر یہاں تک واپس پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ اب دوبارہ کچھ سائنسدان اور ماہرین عمرانیات وغیرہ ان پر تحقیق کرنا چاہ رہے تھے۔

’چند دن پہلے ہم نے کچھ لوگ پیراشوٹ کے ذریعے ان علاقوں کے بالکل قریب بھیجنے کی کوشش کی تھی مگر وہ لوگ کافی چوکنے تھے ۔ انہوں نے ہمارے پانچ ساتھیوں کو مار کر جلا دیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ موسائی قبیلہ ان چند قبائل میں سے ہے جن کی زبان باقی قبائل سے بالکل مختلف ہے اور ہم میں سے کوئی وہ زبان نہیں جانتاورنہ ہم ان کو پہلے ہی ہی بتا دیتے کہ ہم ان کی مدد کے لیے آئے ہیں۔‘‘ ماہر عمرانیات ڈاکٹر اڈالبرتو نے کہا۔

’’ میرے خیال میں تم لوگ وہاں جانے کا ارادہ ترک کر دو۔‘‘ ایک سن رسیدہ روسی بائیولوجسٹ گاوریلہ نے کہا۔ وہ اس ٹیم کا حصہ تھی جو

پچیس سال پہلے موسائی گئی تھی.

’’ میم ہم اپنی موت کے خوف سے ان لوگوں کو نادیدہ موت کے ہاتھوں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے۔

وہ لوگ بچارے سائنسی علوم سے بالکل نابلد ہیں انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ ایک نوجوان امریکی سائنسدان روجر نے کہا۔ اپنی عمر کی ہی طرح اس کے حوصلے بھی جوان تھے۔

’’تمہیں کیا لگتا ہے میں اپنی موت کے خوف سے تمہیں روک رہی ہوں؟‘‘گاوریلہ نے روجر کی طرف دیکھ کے بھنویں اچکائیں۔ روجر نے کوئی جواب دینے کی بجائے کندھے اچکا دئیے۔

’’میں اس لیے روک رہی ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ ان کی موت کی وجہ کیا تھی۔‘‘ گاوریلہ نے انکشاف کیا۔

’’محترمہ آپ کو یہ وجہ اسی وقت حکومت کو بتا دینی چاہیے تھی ،جب آپ کی پچھلی ٹیم ناکام ہو کر بچی کچی واپس آئی تھی۔ اب بتانے کی کیا وجہ اور فائدہ؟ ‘‘ ڈاکٹر اڈالبرتو نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

’’کیوں کہ جب میں وہاں سے آئی تھی تو مجھے بھی نہیں پتا تھا کہ وہ لوگ موت کا شکار کیوں ہوئے۔ میں وہاں سے آتے وقت چند لاشوں سے اسپیسیمین (نمونے) لانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

کافی عرصے ان پہ تحقیق کرنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچی اس سے میں نے فورا حکومت اور متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا تھا۔ مگر انہوں نے اس کی تشہیر کے لیے مجھے سختی سے منع کر دیا تھا۔

ان کو لگتا تھاکہ یہ بہت غیر اہم بات ہے مگر اس تحقیق کو چھپانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے پچیس سالوں میں تقریبا پانچ قبائل مکمل ختم ہو گئے ہیں اور چار قبائل دوسرے علاقوں میں شہری زندگی میں نچلے درجے کے شہری کے طور پر رہنے پر مجبور ہیں ان کی بھی آدھی آبادی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ گاوریلہ نے کافی تفصیل سے وجہ بتائی۔

’’ میم اب وہ وجہ بتا دیں جو ان کی موت کا سبب بنی۔ کوئی نئی قسم کا جرثومہ ، آب و ھوا کی تبدیلی یا کوئی ایلین مخلوق؟‘‘' روجر نے متجسس لہجے میں پوچھا۔

’’ہم۔‘‘ گاوریلہ نے مختصر جواب دیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ روجر نے ہی پوچھا۔

’’ہمارا وہاں جانا ہی ان کی موت کا سبب ہے۔‘‘ گاوریلہ نے اب بھی مبہم جواب دیا۔

’’ محترمہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم آپ کی بات نہیں سمجھے۔‘‘ ڈاکٹر اڈالبرتو نے الجھ کر پوچھا۔

’’جناب ہم بہت سے ایسے جرثومے اپنے جسم میں لے کر گھومتے ہیں جن کو ہمارے جسم کا مدافعتی نظام تو پہچانتا ہے مگر ان قبائلیوں کے جسم کو ان جرثوموں کی عادت نہیں لحاظہ ہمارے جسم میں موجود کمزور سا جرثومہ بھی ان پہ عفریت کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور مار کے ہی جان چھوڑتا ہے۔

اب آپ لوگ بتائیں کیا وہاں ہمارا جانا واقعی ان کی مدد ہوگی۔‘‘

سب گاوریلہ کی بات سے متفق نظر آنے لگے کہ ایک دم روجر کو کچھ خیال آیا۔

’’مگر یہ ابھی صرف ہمیں معلوم ہے کہ ہم مہذب دنیا کے انسان ہی ان کی تباہی کا سبب ہیں۔ مگر اور بھی بہت سے لوگ وہاں جانے کی کوشش کریں گے۔

اور بہت سوں کو تو اس بات کی پروا بھی نہیں ہوگی کہ ان کی وجہ سے یہ قبائلی مر جائیں گے انہیں صرف اس شہرت سے مطلب ہوگا جو انہیں اس ایڈونچر سے ملے گی۔

‘‘ یہ سن کے باقی سب بھی پریشان ہو گئے اور بحث میں لگ گئے کہ کس طرح مہذب دنیا کے لوگوں کو ان سے دور رکھا جائے۔ بہت دیر کی بحث کے بعد وہ سب ایک نتیجے پر پہنچ کر مطمئین ہو گئے۔ انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی اور حکومت کو پیش کر دی۔

اگلے چند دنوں میں موسائی اور اس جیسے چند اور دور افتادہ قبائل کی حدود شروع ہونے سے تھوڑا پہلے دور تک قد آدم سے بھی اونچی باڑ لگ گئی جس کے آگے کچھ کچھ فاصلوں پہ تنبیہی بورڈ لگے تھے جن پہ لکھا تھا

’’خبردار آگے سے خطر ناک دلدلی علاقے شروع ہو جاتے ہیں جن سے مسلسل ریڈیو ایکٹو شعاعیں خارج ہوتی ہیں، لہذا یہاں سے دور رہا جائے۔‘‘

 

install suchtv android app on google app store
Urdu News - پاکستان اور دنیا بھر سے بریکنگ نیوز، کھیل، صحت، تفریح، تجارت اور ٹیکنالوجی کی تازہ ترین اردو خبریں
All Rights Reserved © SUCH TV 2023. SUCH TV is not responsible for the content of external sites.