امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے جمعہ کو تصدیق کی ہے کہ امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق، پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ نیا فریم ورک خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کے فروغ کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی شراکت میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ “ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے،” انہوں نے اپنے بیان میں لکھا۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق، یہ ملاقات کوالالمپور میں ہونے والی آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ-پلس کے موقع پر ہوئی، جو ہفتے سے شروع ہو رہی ہے۔
معاہدے پر دستخط کے بعد، پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا “یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی-بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے۔
ہمارا اسٹریٹجک اتحاد باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات اور ایک محفوظ و خوشحال بحیرہ ہند-بحرالکاہل خطے کے عزم پر قائم ہے۔”
پیٹ ہیگسیتھ کے مطابق، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک جامع اور اہم معاہدہ ہے جو دونوں ممالک کی افواج کے درمیان مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی بنیاد رکھے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “یہ معاہدہ ہماری مشترکہ سلامتی اور مضبوط شراکت داری کے لیے امریکا کے طویل المدتی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔”
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب چند روز قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ملائیشیا میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔
یہ ملاقات روسی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم اعلیٰ سطحی رابطہ تصور کی جا رہی ہے۔
جے شنکر نے سوشل میڈیا پر روبیو کے ساتھ مصافحے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی امور پر مفید گفتگو ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق، اگست میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ اس وقت پیدا ہوا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارتی درآمدات پر 50 فیصد تک محصولات میں اضافہ کیا اور واشنگٹن نے نئی دہلی پر الزام لگایا کہ وہ روس سے سستا تیل خرید کر ماسکو کی جنگی مشین کو تقویت دے رہا ہے۔
ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ مودی نے روسی تیل کی درآمدات میں کمی پر اتفاق کیا ہے، تاہم نئی دہلی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
گزشتہ ماہ امریکا نے ایچ-ون بی ہنرمند کارکنوں کے ویزے پر ’ایک بار کے لیے‘ ایک لاکھ ڈالر کی اضافی فیس بھی عائد کی تھی، جن میں سالانہ ویزا حاصل کرنے والوں کی اکثریت، تقریباً 75 فیصد بھارتی شہری ہوتے ہیں۔
نئی دہلی نے اس اقدام پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ پالیسی انسانی مسائل کو جنم دے سکتی ہے اور ان خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے جو اس پالیسی سے متاثر ہوں گے۔