خیبرپختونخوا حکومت نے فلم ‘مالک’ کی نمائش کی پیشکش کر دی

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں عاشر عظیم کی فلم 'مالک' چلانے کی پیشکش کر دی خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں عاشر عظیم کی فلم 'مالک' چلانے کی پیشکش کر دی

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں عاشر عظیم کی فلم 'مالک' چلانے کی پیشکش کر دی۔

صوبائی حکومت نے مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے فلم ‘مالک’ پر پابندی کو مسترد کرتے ہوئے فلم کی سینما گھروں میں نمائش کی پیشکش کا اعلان کیا۔

 صوبائی وزیر اطلاعات ونشریات مشتاق غنی کا کہنا تھا کہ ایک شخص نے کوشش کی ہے کہ بدعنوانی کو بے نقاب کرے، اس سے بڑے بڑوں کو تکلیف ہو گئی، اس پر حکومتیں پابندی لگا رہی ہیں، یہ فلم پورے ملک میں دکھائی جانی چاہیے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں فلم ‘مالک’ پر پابندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم نوٹیفکیشن میں پابندی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی، دو روز پہلے سندھ سنسر بورڈ نے بھی فلم ‘مالک’ پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جسے چند گھنٹوں بعد ہی واپس لے لیا گیا تھا۔

مشتاق غنی نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے فلم پر کوئی پابندی نہیں، جس سینما میں چاہے یہ فلم چلائی جا سکتی ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بدعنوانی کے لیے بالکل جگہ نہیں ہے، حکومت کی جانب سے فلم کی نمائش کے لیے بھر پور معاونت کی جائے گی تاکہ عوام کو آگاہی ہو کہ اس ملک میں کس طرح کرپشن ہو رہی ہے۔

مزید پڑھیں: فلم 'مالک' پر ملک بھر میں پابندی عائد

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فلم اس چیز کو بے نقاب کر رہی ہے کہ برسر اقتدار لوگ کیا کیا حرکات کرتے ہیں اور کس طرح پیسہ لوٹا جاتا ہے۔

مشتاق غنی کا کہنا تھا کہ فلم مالک کی نمائش کی ملک بھر میں آزادی ہونی چاہیئے، پاکستان کے آئین کے تحت کسی کے اظہار رائے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

فلم پر اعتراض کرنے والوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر فلم میں کسی شخص کو نشانہ بنایا گیا تو اس حصے کو ایڈٹ کرکے نکالا جا سکتا ہے لیکن پوری فلم پر پابندی عقل سے بالاتر ہے۔

دوسری جانب مرکزی سینسر بورڈ کے چئیرمین کا کہنا ہے کہ فلم "مالک" دکھانے والے سینما گھروں کےخلاف کارروائی ہوگی۔

 مرکزی سینسر بورڈ کے چئیرمین مبشر خان کا کہنا تھا کہ فلم ‘مالک’ پر عوامی شکایات اور ردعمل کے باعث پابندی لگائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: فلم "مالک" پر پابندی کا اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور کینٹ کے تمام سینما گھروں پر بھی مرکزی بورڈ کے قانون موشن فیکچر آرڈیننس (1979) کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے فلم دکھانے والے سینما گھروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

مرکزی سینسر بورڈ کے چئیرمین کا دعویٰ تھا کہ فلم میں پختونوں کی نمائندگی مضحکہ خیزانداز میں کی گئی۔

فلم کی کہانی

دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق فلم میں مختلف سمتوں سے 3 کہانیاں ایک ساتھ آگے بڑھتی ہیں، پہلی کہانی میں سابق فوجی باپ بیٹا ہیں جن کی ایک سیکورٹی کمپنی ہے۔

ایک تاجر کے بیٹے کا اغواء اور پھر پیشہ ورانہ سیکورٹی کمپنی کے اہلکاروں کے ذریعے اس کی رہائی دکھائی گئی۔

بیٹے کا کردار نبھانے والے عاشر عظیم اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں، جب وہ فوج میں تھے، اس وقت کچھ چینی انجینئرز کو بلوچستان میں اغواء کر لیا گیا تھا اور وہ اسپیشل فورسز کی طرف سے کیے جانے والے آپریشن کی کمان سنبھالتے اور کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

اسی دوران ان کی بیوی ایک بچی کو جنم دینے کے بعد انتقال کر جاتی ہے۔

نومولود بچی کا ساتھ اور فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد یہ سابق فوجی ایک سیکیورٹی کمپنی قائم کرتا ہے، جس کے ذریعے وہ مختلف اداروں کو پیشہ ورانہ سیکیورٹی فراہم کرتا ہے۔

اسی سلسلے میں وزیرِاعلیٰ سندھ کی سیکیورٹی کا ٹھیکہ اس کمپنی کو مل جاتا ہے۔

اب اس چار دیواری میں جتنی غیر اخلاقی اور بددیانتی پر مبنی حرکات ہوتی ہیں، انھیں وہ قریب سے دیکھتا، لیکن خون کے گھونٹ پی کر چپ رہتا ہے۔

دوسری طرف ایک بااصول استاد کو دکھایا گیا ہے، جس کا کنبہ گاؤں میں اس کے اصولوں اور وڈیرہ شاہی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔

تیسری طرف پاک افغان سرحد سے ہجرت کرکے آنے والے خاندان کی کہانی ہے۔

ان تینوں کہانیوں کے کردار کا سنگم شہر کراچی میں ہوتا ہے۔

اپ بیٹے کی سیکورٹی کمپنی کو کراچی میں وزیرِاعلیٰ سندھ کا ٹھیکہ ملنا، گاؤں کے وڈیرے کا اپنے صوبے کا وزیرِاعلیٰ بن کے کراچی منتقل ہونا، پاک افغان سرحد سے پشتون خاندان کا ہجرت کرکے کراچی آنا، ان تینوں کہانیوں کے مرکزی اور ذیلی کردار آپس میں متصادم ہوتے ہیں۔

فلم کے اختتام پر وزیرِاعلیٰ سندھ اسی سیکیورٹی کمپنی کے مالک کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔

install suchtv android app on google app store